وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِم بَابًا مِّنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ
اور اگر ہم ان پر آسمان سے کوئی دروازہ کھول دیں، پس وہ دن بھر اس میں چڑھتے رہیں۔
(10) ان دونوں آیتوں سے مقصود کفار قریش کے خلاف حجت قائم کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم کو ان کے دلوں میں اس طرح داخل کردیا ہے جس طرح ان مؤمنوں کے دلوں میں، جنہوں نے قرآن کی تصدیق کی، لیکن کافروں نے جان بوجھ کر اس کی تکذیب کی اور مؤمنوں نے اس کی تصدیق کی، دونوں ہی نے اپنا اپنا کام علم و فہم کے بعد کیا، تاکہ کافروں کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے کہ انہوں نے تو قرآن کی معجزانہ قدروں کو سمجھا ہی نہیں تھا جس طرح مسلمانوں نے سمجھا تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں ابھی سے (جبکہ مہلت ایمانی باقی ہے) یہ بتا دیا کہ انہوں نے جان بوجھ کر معاندانہ طور پر قرآن کا انکار کیا ہے، اسی لیئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں صاف اور روشن راہ پر ڈال دے جس کے آثار و مظاہر کے مشاہدے کا تقاضا یہ ہو کہ آدمی فورا ایمان لے آئے، یعنی ان کے لیے آسمان کا دروازہ کھول دیا جائے اور وہ چڑھتے جائیں اور اللہ تعالیٰ کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ بھی کرلیں جس کا لازمی نتیجہ ایمان ہونا چاہیے تب بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے اور کہیں گے کہ محمد (ﷺ)نے ہماری آنکھوں کو مسحور کردیا ہے، جس کی وجہ سے حقائق ہمارے سامنے بدل کر آرہے ہیں۔