وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ
اور تو اللہ کو ہرگز اس سے غافل گمان نہ کر جو ظالم لوگ کر رہے ہیں، وہ تو انھیں صرف اس دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔
(30) یہاں مخاطب اگرچہ نبی کریم (ﷺ)ہیں، لیکن مقصود ان کی امت ہے، اور ظالمون سے مراد مکہ کے مشرکین ہیں، یعنی اگر اللہ نے انہیں مہلت دے دی ہے اور عذاب کو ان سے موخر کردیا ہے تو اس سے انہیں اس غلط فہمی میں نہیں پڑنا چاہیے کہ وہ ان سے غافل ہے، یا انہیں درگزر کردیا ہے، بلکہ وہ ان تمام گناہوں کو ایک ایک کر کے ان کے نامہ اعمال میں جمع کر رہا ہے، اور جب وہ دن آجائے گا جب مارے دہشت کے لوگوں کی آنکھیں اٹھی کی اٹھی رہ جائیں گی، تو وہ سارے اعمال بد ان کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں نبی کریم (ﷺ)کو تسلی دی گئی ہے اور نصرت و کامرانی کا وعدہ کیا گیا ہے اور کفار مکہ کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی حالت نہیں بدلی تو برے انجام کا انتظار کریں۔