يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ
اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے، پختہ بات کے ساتھ خوب قائم رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور اللہ ظالموں کو گمراہ کردیتا ہے اور اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔
(20) سے مراد کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ بخاری و مسلم اور اہل سنن نے براء بن عازب سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا : مسلمان سے جب قبر میں سوال ہوتا ہے تو وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں، اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یوں کہا ہے : ایک دوسری رائے یہ ہے کہ آیت سے مقصود کلمہ حق اور دین اسلام پر ثبات قدمی ہے، جن کے دلوں میں ایمان بس جاتا ہے، آزمائشوں کے وقت ان کے پائے استقلال میں تزلزل نہیں آتا، اور قیامت کے دن بھی جب ان سے ان کے دین و عقیدہ کے بارے میں سوال ہوگا تو میدان محشر کی ہولناکیوں سے متاثر ہو کر ان کی زبان نہیں لڑکھڑائے گی۔ بعض کا خیال ہے سے مراد قبر میں سوال کا وقت اور سے مراد قیامت کے دن حساب کا وقت ہے، اور مقصود اس آیت سے یہ ہے کہ جب مؤمنوں سے قبر میں یا قیامت کے دن سوال ہوگا تو بلا جھجک کلمہ شہادت اپنی زبان پر لائیں گے اور دنیا میں دین اسلام پر قائم رہنے کی بات کریں گے، اور جنہوں نے کفر و شرک کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا ہوگا، کلمہ شہادت ان کی زبان پر نہ قبر میں آئے گا اور نہ ہی قیامت کے دن حساب کے وقت۔ بعض مفسرین نے کے ضمن میں لکھا ہے کہ ہر شخص جو دلائل و براہین کے باوجود سے اعراض کرتا ہے وہ آزمائشوں کے وقت دین حق پر ثابت قدم نہیں رہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، کسی کو حق پر ثابت قدمی کی توفیق دیتا ہے تو کسی کو اس نعمت سے محروم کردیتا ہے، اس کے ارادہ و مشیت میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے۔