وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ ۖ وَمِنَ الْأَحْزَابِ مَن يُنكِرُ بَعْضَهُ ۚ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ مَآبِ
اور وہ لوگ جنھیں ہم نے کتاب دی ہے، وہ اس پر خوش ہوتے ہیں جو تیری طرف اتارا گیا ہے اور کچھ گروہ وہ ہیں جو اس کے بعض کا انکار کرتے ہیں۔ کہہ دے مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤں۔ میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میرا لوٹنا ہے۔
(34) اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ کتاب سے مراد تورات و انجیل، اور خوش ہونے والوں سے مراد وہ یہود و نصاری ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، دوسرا قول یہ ہے کہ عام یہود و نصاری مراد ہیں جو قرآن کریم کی ان آیتوں کو سن کر خوش ہوتے تھے جن سے تورات و انجیل کے احکام کی تائید ہوتی تھی۔ پہلے قول کے مطابق احزاب سے مراد وہ یہود و نصاری ہوں گے جنہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا تھا، اور دوسرے قول کے مطابق مشرکین مکہ اور دیگر کفار ہوں گے یا بعض یہود و نصاری جو قرآن کا انکار اس لیے کرتے تھے کہ اس کے ذریعہ ان کی شریعتیں منسوخ ہوگئی تھیں۔ (35) نزول قرآن کے بارے میں یہود و نصاری کا موقف واضح کرنے کے بعد رسول اللہ(ﷺ) کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کافروں کو بتا دیں کہ آپ صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں ور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتے، اور یہ وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر تمام ادیان سماویہ کا اتفاق ہے۔