سورة الرعد - آیت 33

أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۗ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ۗ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو کیا وہ جو ہر جان پر اس کا نگران ہے جو اس نے کمایا (کوئی دوسرا اس کے برابر ہوسکتا ہے؟) اور انھوں نے اللہ کے کچھ شریک بنا لیے۔ کہہ دے ان کے نام لو، یا کیا تم اسے اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ زمین میں نہیں جانتا، یا ظاہری بات سے (کہہ رہے ہو؟) بلکہ ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا، ان کا مکر خوشنما بنا دیا گیا اور وہ سیدھے راستے سے روک دیے گئے اور جسے اللہ گمراہ کر دے پھر اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(31) اس استفہام سے مقصود کفار کی زجر و توبیخ ہے کہ کیا وہ معبود برحق جو ایک ایک انسان کی نگرانی کررہا ہے، جس سے ان کا کوئی عمل مخفی نہیں، ان بتوں کے مانند ہے جن کی وہ عبادت کرتے ہیں، جو نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں، اور نہ ہی کسی نفع و نقصان کی قدرت رکھتے ہیں۔ گزشتہ مضمون ہی کی مزید تاکید کے طور پر کہا جارہا ہے کہ ذرا تم اپنے ان باطل معبودوں کی صفات تو بیان کرو اور غور کرو تو سہی کہ کیا وہ تمہاری عبادت کے مستحق ہیں، کیا وہ اس کے اہل ہیں کہ انہیں اللہ کا شریک بنایا جائے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جھوٹے معبود کا دعوی کر کے کیا تم اللہ کو ایسی بات کی خبر دیتے ہو جس کا اسے علم نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تمہارا یہ قول حقیقت کے عین خلاف ہے، ویسا ہی جیسے کوئی جہالت و نادانی میں آکر کسی کالے حبشی کا نام کافور رکھ دے۔