وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي ۖ فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ
اور بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے لیے خاص کرلوں، پھر جب اس نے اس سے بات کی تو کہا بلاشبہ تو آج ہمارے ہاں صاحب اقتدار، امانتدار ہے۔
(48) اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو ان کے صبر و استقامت اور عفت و طہارت کی وجہ سے بہت ہی اونچا مقام عطا فرمایا، مقام نبوت سے سرفراز فرمایا، اور شاہ مصر کا خلیفہ اور نائب بنا دیا، جب بادشاہ کو ان کی عفت، طہارت نفس اور وسعت علم کی خبر ہوئی تو انہیں اپنے پاس لے آنے کا حکم دیا تاکہ انہیں اپنا خاص مشیر کار بنا لے، اور جب ان سے بات کرنے کے بعد اسے تمام باتوں کا یقین ہوگیا اور جان گیا کہ یہ وہ گوہر نایاب ہے جو کسی کو قسمت سے ملا کرتا ہے، تو فورا یوسف (علیہ السلام) سے کہا کہ میں تمہیں اپنی حکومت میں اعلی منصب پر متعین کرتا ہوں اور اپنی طرف سے ہر چیز کا ذمہ دار اور امانت دار بناتا ہوں۔ چنانچہ انہیں اپنے بعد سرزمین مصر کا سب سے بڑا حاکم بنا دیا، اور پورے ملک میں اس کا اعلان کروا دیا، اور عظمائے مملکت میں سے ایک کی بیٹی سے ان کی شادی کردی۔