وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتی، بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ بے شک میرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
(47) اس آیت کریمہ سے تیرہویں پارہ کی ابتدا ہورہی ہے، اس میں یوسف (علیہ السلام) نے اللہ کے لیے اپنی غایت خشوع و خضوع کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں اپنے نفس کا تزکیہ نہیں کرتا ہوں، انسان کا نفس تو برائی پر اکساتا ہی رہتا ہے، سوائے ان نفوس قدسیہ کے جن پر اللہ کا خاص فضل و کرم ہوتا ہے، اس لیے وہ برائی کا حکم نہیں دیتے ہیں، اور میرا رب تو بڑا معاف کرنے والا اور بے حد مہربان ہے۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ زلیخا کے قول کا حصہ ہے، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی بھی یہی رائے ہے، ایسی صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ میں نے اپنی غلطی اور یوسف کی عفت و پاکدامنی کا اعتراف اس لیے صراحت کے ساتھ کرلیا ہے تاکہ میرا شوہر جان لے کہ میں نے پوشیدہ طور پر اس کے ساتھ خیانت نہیں کی، اور میں اپنے نفس کی پاکی کا دعوی نہیں کرتی ہوں، انسان کا نفس تو گناہ پر ابھارتا ہی رہتا ہے، جبھی تو میں نے یوسف کو گناہ پر ابھارا تھا۔