وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ
اور بلاشبہ یقیناً وہ اس کے ساتھ ارادہ کرچکی تھی اور وہ بھی اس عورت کے ساتھ ارادہ کرلیتا اگر یہ نہ ہوتا کہ اس نے اپنے رب کی دلیل دیکھ لی۔ اسی طرح ہوا، تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو ہٹا دیں۔ بے شک وہ ہمارے خالص کیے ہوئے بندوں سے تھا۔
(24) عربی زبان میں هَمَّدو معنوں میں استعمال ہوتا ہے، ایک ایسا قصد و ارادہ جس کے ساتھ گناہ کے کر گزرنے کا عزم ہو اور دل سے ایسا کرنا چاہتا ہو، یہ مذموم ہے۔ اور اس پر مواخذہ ہوگا، اور دوسرا وہ خیال جو انسان کے ذہن میں پیدا تو ہو، لیکن اس کے کر گزرنے کا عزم نہ پایا جائے، ایسے خیال پر انسان کا مواخذہ نہیں ہوگا۔ بخاری و مسلم اور اہل سنن نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے اس خیال کو معاف کردیا ہے جو اس کے دل میں گزرتا ہے، جب تک کہ اسے اپنی زبان پر نہ لائے یا اسے کر نہ گزرے۔ آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ زلیخا نے جب دروازے بند کر کے یوسف کو دعوت گناہ دی تو اس نے یوسف کے ساتھ چمٹ جانے کا پختہ ارادہ کرلیا تھا، اور اگر یوسف نے بھی اپنے رب کے برہان کا ایمانی مشاہدہ نہ کیا ہوتا اور زنا کی قباحت و شناعت ان کے دل و دماغ میں اس حد تک نہ بیٹھی ہوتی کہ گویا وہ اس کی بد ترین شکل کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے تھے، تو وہ بھی ویسا ہی ارادہ کرلیتے، لیکن ان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہی نہیں۔ آیت کریمہ اسی پر دلالت کرتی ہے، اس لیے کہ لَوْلَاکا جواب محذوف ہے، جس پر سابقہ عبارت دلالت کرتی ہے۔ فخر الدین رازی اور مفسر ابو السعود کہتے ہیں کہ بشری تقاضے اور فطری رجحان کے مطابق یوسف کا میلان زلیخا کی طرف ہوا تھا، لیکن دل میں ارادہ نہیں پیدا ہوا تھا، اور ایسے فطری میلان سے نبی کی عصمت میں کوئی فرق نہیں آتا، جیسے کوئی روزہ دار شدید گرمی میں پانی دیکھ کر پینے کی خواہش کرتا ہے تو اس کا دین اس سے روک دیتا ہے۔ لیکن میرے نزدیک یہ رائے مرجوح ہے اور قابل اعتناء نہیں ہے اس لیے کہ قرآن کی عبارت سے وہی بات سمجھ میں آتی ہے جس کا میں نے ابھی اوپر ذکر کیا ہے کہ اگر یوسف نے پہلے سے اللہ کے برہان کا ایمانی مشاہدہ نہ کیا ہوتا تو ان کے دل میں بھی گناہ کا خیال پیدا ہوجاتا۔ صاحب محاسن التنزیل، شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا ابو الاعلی مودودی وغیرہم نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے، اور ابھی آگے آئے گا کہ یوسف نے اپنے آپ کو اس گناہ سے بچانے کے لیے دروازے کی طرف بھاگنا شروع کیا، اور جس انداز میں بھاگے وہ کیفیت اس آدمی کی نہیں ہوسکتی جس کے دل میں عورت کی طرف میلان پیدا ہوگیا ہو، قرآن میں ایک کلمہ بھی ایسا نہیں ہے جس سے ادنی سا اشارہ ہوتا ہو کہ یوسف کے دل میں زلیخا کی طرف میلا ن پیدا ہوا تھا۔ اور نبی کو ایسا ہی ہونا چاہیے، اگر اس کے دل میں بھی گناہ کا خیال گزر جائے تو پھر اس میں اور غیر نبی میں کیا فرق ہوگا حق تو یہ ہے کہ اس طرح کی بحث چھیڑنا نبی کی عظمت شان پر کلام کرنے کے مترادف ہوگا، جو ایک مخلص مسلمان کو زیب نہیں دیتا، اور یہ جو بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اگر بشری تقاضے کے مطابق انبیاء کے دل میں گناہ کا میلا ن نہ پیدا ہو تو پھر انہیں اجر کس بات کا ملے گا، تو یہ بات بھی صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ جب وہ اپنی حلال بیویوں اور باندیوں کے پاس ہوتے تھے تو ان کی فطری رغبت جاگتی تھی، تو انہیں اجر اس بات کا ملتا تھا کہ فطری قوت ہونے کے باوجود محرمات کے سامنے ان کے دل میں گناہ کا خیال نہیں گزرتا تھا۔ وباللہ التوفیق