وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
اور یقیناً ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔
231: یہ خطاب صحابہ کرام کے لیے ہے، لیکن دیگر مؤمنین بھی اس میں شامل ہیں، اس لیے کہ جو لوگ دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کی ذمہ داری قبول کریں گے، ان کا مقابلہ اہل فسق و فجور سے ہوگا، اور جو لوگ حق پر قائم رہٰیں گے اور اس کی طرف دوسروں کو بلائیں گے ان کی ابتلاء و آزمائش لازم ہے، یہی سنت ابراہیمی ہے، اور یہ آزمائش اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ جھوٹے اور سچے اور صبر کرنے والے اور جزع و فزع کرنے والے میں تمیز ہوسکے۔ اور جو صبر سے کام لیتا ہے، اللہ سے اجر کی امید رکھتا ہے، اور راضی بقضائے الٰہی ہوتا ہے، اللہ اسے بشارت دیتا ہے کہ اس کا اجر اس کو پورا پورا ملے گا۔