لَّقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِّلسَّائِلِينَ
بلاشبہ یقیناً یوسف اور اس کے بھائیوں میں سوال کرنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں تھیں۔
(7) یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے اس قصہ کے بارے میں اہل مکہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اور نہ نبی کریم(ﷺ) کو ہی اس کی کوئی خبر تھی، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی خبر دینے کے لیے قرآن میں یہ سورت نازل فرمائی۔ اور آپ نے پھر اہل مکہ کے سامنے اس کی تلاوت کی تو وہاں کے لوگوں کو اس کا علم ہوا۔ یہ اس بات کی قطعی دلیل تھی کہ آپ اللہ کے نبی تھے۔ میں اسی طرح اشارہ ہے۔ مفسر قاشانی کہتے ہیں کہ اس واقعہ سے تین اہم باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ نبوت و رسالت کا تعلق محض اللہ کی مشیت سے ہے، وہ جسے چاہتا ہے یہ نعمت عطا کرتا ہے، دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی کو کوئی نعمت دینا چاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا، اور اللہ تعالیٰ جس کی حفاظت کرے اس کا کوئی ایک بال بھی بیکا نہیں کرسکتا، اور تیسری بات یہ کہ شیطان کے مکرو فریب سے انبیاء بھی محفوظ نہیں ہوتے ہیں، اسی لیے وہ ہر وقت اس کے نرغوں سے بچنے کے لیے اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں۔