سورة ھود - آیت 114

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی، بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ یہ یاد کرنے والوں کے لیے یاد دہانی ہے۔

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

(93) آیت (112) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) اور مسلمانوں کو دین پر استقامت کا حکم دیا ہے، چونکہ نماز ایمان کی جڑ اور استقامت کا اہم ترین مظہر ہے، اسی لیے یہاں اس کا ذکر خصوصی طور پر آیا ہے، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو حکم دیا ہے کہ وہ دن کے شروع اور آخر میں اور آخری پہر رات میں نماز پڑھا کریں، ابن جریر کے نزدیک اس سے مراد فجر، مغرب اور رات کی آخری پہر کی نماز ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ممکن ہے یہ آیت پنجگانہ نمازوں سے پہلے نازل ہوئی ہو، جب طلوع شمس اور غروب شمس کے قبل صرف دو نمازیں واجب تھیں، اور قیام اللیل آپ اور تمام مسلمانوں پر واجب تھا، اس کے بعد عام مسلمانوں سے قیام اللیل کا وجوب ساقط ہوگیا اور آپ کے لیے اس کا وجوب باقی رہا، پھر کچھ دنوں کے بعد ایک قول کے مطابق آپ سے بھی اس کا وجوب ساقط ہوگیا۔ واللہ اعلم۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں، اور چونکہ نیکیوں میں نماز کا درجہ بہت ہی اونچا ہے، اس لیے یہ یقینا برائیوں کو مٹا دیتی ہے۔ امام احمد اور اصحاب سنن نے علی بن ابی طالب سے روایت کی ہے کہ جب کسی مؤمن سے کسی گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے اور وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھ لیتا ہے تو اس کا وہ گناہ معاف کردیا جاتا ہے۔ اس آیت کے شان نزول میں امام بخاری و مسلم وغیرہ نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آیا اور کہا کہ میں شہر کے مضافات میں ایک عورت کا علاج کر رہا تھا، تو اسے بغیر چھوئے مجھ سے گناہ کا ارتکاب ہوگیا یعنی میں نے اس کا بوسہ لے لیا، جیسا کہ بعض روایتوں میں اس کی صراحت آئی ہے، آپ میرے بارے میں اپنا حکم صادر فرما دیں، آپ خاموش رہے وہ آدمی جانے لگا، تو آپ نے اسے بلا لیا اور یہی آیت تلاوت فرمائی۔ یعنی اس گناہ کے بعد تم نے جو نیک عمل کیا ہے اس نے اس گناہ کو ختم کردیا ہے۔ یہ دیکھ کر ایک صحابی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا یہ حکم اسی کے ساتھ خاص ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے، امام مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : آدمی جب تک کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے گا اس کی ہر دو نمازیں ان کے درمیان کے گناہوں کے لیے کفارہ بنتی رہیں گی۔