قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَٰذَا ۖ أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ
انھوں نے کہا اے صالح! یقیناً تو ہم میں وہ تھا جس پر اس سے پہلے امیدیں رکھی گئی تھیں، کیا تو ہمیں منع کرتا ہے کہ ہم ان کی عبادت کریں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے ہیں اور بے شک ہم اس بات کے بارے میں جس کی طرف تو ہمیں دعوت دیتا ہے، یقیناً ایک بے چین رکھنے والے شک میں ہیں۔
(49) صالح (علیہ السلام) کی دعوت توحید کو ان لوگوں نے رد کرتے ہوئے کہا کہ اے صالح ! بچپن سے تمہارے عادات و اطوار کو دیکھ کر ہم نے امید لگا رکھی تھی کہ تم ہمارے سردار بنو گے اور ہمیں تم سے فائدہ پہنچے گا، اپنے انفرادی و اجتماعی امور میں تم سے مشورے لیا کریں گے، لیکن تمہاری باتیں سن کر ہماری امیدوں پر پانی پڑگیا اور ہمیں یقین ہوگیا کہ تمہارے اندر کوئی خیر نہیں ہے، جبھی تو تم ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکتے ہو جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے آئے ہیں، تم جس توحید کی دعوت ہمیں دے رہے ہو اس کی صداقت کے بارے میں ہمارے دلوں میں بڑا قوی شک و شبہ پایا جاتا ہے۔