وَقِيلَ يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَا سَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ ۖ وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور کہا گیا اے زمین! تو اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان! تو تھم جا اور پانی نیچے اتار دیا گیا اور کام تمام کردیا گیا اور وہ جودی پر جا ٹھہری اور کہا گیا ظالم لوگوں کے لیے دوری ہو۔
(32) جب تمام اہل زمین ڈوب گئے اور کوئی کافر زندہ نہ رہا تو اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ جو پانی اوپر ابل آیا تھا اسے فورا پی جائے، اور آسمان کو حکم دیا کہ بارش برسانا روک دے۔ چنانچہ پانی خشک ہوگیا اور اللہ کا فیصلہ پورا ہوگیا، جس کو بچانا چاہا بچا دیا، اور جسے ہلاک کرنا چاہا ہلاک کردیا۔ جب پانی کم ہونے لگا اور پہاڑوں کی چوٹیاں ظاہر ہونے لگیں تو کشتی جودی پہاڑ پر جا کر ٹھہر گئی، جو موصل شہر کے قریب واقع ہے، اور اللہ کی جانب سے اعلان ہوگیا کہ اب ظالموں سے زمین پاک ہوگئی (خس کم جہاں پاک)۔ عبدالرحمن بن خلدون نے لکھا ہے کہ، اہل علم کا اتفاق ہے کہ طوفان کی وجہ سے زمین پر رہنے والے سبھی لوگ ہلاک ہوگئے تھے، اور جو مسلمان نوح کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تھے، ان کی بھی کوئی اولاد نہیں ہوئی، صرف نوح کے تینوں بیٹوں سے نسل چلی، اسی لیے نوح (علیہ السلام) آدم ثانی کہلائے۔ مقریزی نے اپنی کتاب الخطط میں بھی تمام اہل ادیان کا اسی پر اتفاق نقل کیا ہے۔