فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ
تو اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے کہا جنھوں نے کفر کیا تھا، ہم تجھے نہیں دیکھتے مگر اپنے جیسا ایک بشر اور ہم تجھے نہیں دیکھتے کہ ان لوگوں کے سوا کسی نے تیری پیروی کی ہو جو ہمارے سب سے رذیل ہیں، سطحی رائے کے ساتھ اور ہم تمھارے لیے اپنے آپ پر کوئی برتری نہیں دیکھتے، بلکہ ہم تمھیں جھوٹے گمان کرتے ہیں۔
(19) نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں نے ان کی دعوت کو رد کردیا، اور ان کے نبی ہونے میں تین قسم کے شبہات کا اظہار کیا، پہلا شبہ یہ ظاہر کیا کہ تم ہماری ہی طرح انسان ہو، تو ہمارے بجائے تم نبوت کے کیسے حقدار بن گئے؟ ان کا دوسرا شبہ یہ تھا کہ قوموں کے سرداروں میں سے ایک نے بھی تمہاری اتباع نہیں کی ہے، صرف گھٹیا قسم کے لوگوں نے تمہاری پیروی کی ہے، جو کم عقل اور بے وقوف ہیں اور اچھی اور گہری سوچ سمجھ نہیں رکھتے ہیں، اگر تم نبی ہوتے تو سرداران قوم تم پر ایمان لاتے، اور تیسرا شبہ یہ تھا کہ تم میں اور تمہارے پیروکاروں میں کوئی ایسی خوبی نظر نہیں آتی جو ہم میں نہ ہو، تو پھر تم نبی کیسے ہوگئے؟ حافظ ابن کثیر نے ان شبہات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ باتیں قوم نوح کی جہالت اور کم عقلی کی دلیل تھی، اس لیے کہ حق حق ہوتا ہے، چاہے اس کی اتباع شرفائے قوم کریں یا غریب لوگ کریں، اور تاریخ یہی بتاتی ہے کہ حق کو ماننے والے ہمیشہ زیادہ کمزور لوگ ہوئے ہیں۔ ہر قل شاہ روم نے ابو سفیان سے جب نبی کریم (ﷺ) کی صفات کے بارے میں سوالات کیے، تو اس کا ایک سوال یہ تھا کہ اس کے ماننے والے سرداران قوم ہیں یا کمزور لوگ؟ ابو سفیان نے کہا : کمزور لوگ، تو ہر قل نے کہا کہ ہمیشہ انبیاء کی پیروی کرنے والے ایسے ہی لوگ ہوا کیے ہیں، اور یہ جو انہوں نے کہا کہ تمہارے ماننے والے زیادہ گہری فکر والے نہیں ہیں، تو یہ بھی کوئی قابل توجہ بات نہیں ہے، اس لیے کہ اگر حق واضح ہو، اور دل کا آئینہ روشن ہو، تو آدمی ایک لمحہ کے لیے بھی شک و شبہ میں نہیں پڑتا اور حق کو فورا قبول کرلیتا ہے، رسول اللہ (ﷺ) نے جب اپنی رسالت کا اعلان کیا تو ابوبکر (رض) نے بغیر کسی توقف کے آپ کی آواز پر لبیک کہا اور اسلام میں داخل ہوگئے۔