وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا، بے شک میں تمھارے لیے صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔
(18) اس آیت کریمہ سے پانچ انبیائے کرام اور ان کی قوموں کے واقعات کی ابتدا ہورہی ہے اور مقصود یہ ہے کہ کفار و مشرکین کو انداز بدل کر اسلام کی دعوت دی جائے، اور انہیں ڈرایا جائے کہ اگر انہوں نے بھی حق سے اعراض کیا تو ان کا انجام بھی انہی قوموں جیسا ہوسکتا ہے، نیز نبی کریم (ﷺ) کو بھی تسلی دینی مقصود ہے کہ آپ سے پہلے بہت سے انبیائے کرام آئے اور انہیں ان کی قوموں نے جسمانی اور ذہنی اذیتیں پہنچائیں، لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا اور اللہ کا دین پہنچاتے رہے، یہاں تک کہ ان قوموں کے بارے میں اللہ کا فیصلہ آگیا، تو اے نبی ! آپ بھی صبر سے کام لیں اور پیغام حق لوگوں تک پہنچاتے رہیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ سب سے پہلا واقعہ نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قوم کو دعوت اسلام دینے کے لیے نبی بنا کر بھیجا تھا، کہا جاتا ہے کہ ان کے کفر و شرک اور شر و فساد سے زمین بھر گئی تھی، نوح (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ لوگو ! اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت نہ کرو ورنہ مجھے ڈر ہے کہ اللہ کا دردناک عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔