خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی نگاہوں پر بھاری پردہ ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔
14۔ کافروں کے بارے میں گذشتہ آیت میں جو حکم بیان ہوا ہے کہ وہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے۔ اس آیت کریمہ میں اس کی علت بیان کی گئی ہے، اور ان امور کا ذکر ہے جو ان کے لیے ایمان سے مانع تھے۔ کسی چیز پر مہر لگا دینے کا مفہوم ہوتا ہے، اس بات کا یقین کرلینا کہ اب اس کے اندر کوئی چیز باہر سے داخل نہیں ہوسکتی۔ یہی حال کافروں کا ہے کہ کفر و ضلالت پر اصرار، تقلیدِ آباء میں انہماک اور غور وفکر کے صحیح راستوں سے اعراض کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی ایسی حالت بنا دی کہ وعظ و نصیحت ان پر اثر انداز نہیں ہوتی، اور حق بات اس میں داخل نہیں ہوتی۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے جو ہر نفع بخش چیز کے دیکھنے سے مانع ہے، دل، کان، اور آنکھ یہی راستے ہیں علم حاصل کرنے کے، جب یہ بند کردئیے گئے، تو ان سے ایمان لانے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔، اور نہ ان سے کسی خیر کی امید کی جاسکتی ہے۔ یہ سب کچھ ان کے کفر اور حق سے عناد کی وجہ سے ہوا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یعنی اور ہم ان کے دل اور آنکھیں الٹ دیں گے، جیسے پہلی بار نشانی پر ایمان نہیں لائے۔ اللہ کا یہ فوری عذاب تھا اور آخرت میں آگ کا سخت عذاب، اور رب العالمین کی دائمی ناراضگی ان کی قسمت بن جائے گی۔ تفسیر ابو السعود میں ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگانے کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا، اس لیے کہ وجود میں آنے کے اعتبار سے تمام اشیاء کی نسبت اللہ ہی کی طرف ہونی چاہئے۔ اگرچہ اکتساب عمل کے اعتبار سے یہ جو کچھ ہوا، انہی کے کرتوتوں کا نتیجہ تھا، ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی، اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔