مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ
جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتا ہو ہم انھیں ان کے اعمال کا بدلہ اسی (دنیا) میں پورا دے دیں گے اور اس (دنیا) میں ان سے کمی نہ کی جائے گی۔
(13) چونکہ کفار قریش کا عناد اور ان کی سرکشی کا سب سے بڑا سبب دنیاوی زندگی کا عیش و آرام اور ریاست و قیادت کی خواہش تھی، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیتوں میں دنیاوی فائدوں کی حقارت اور ان لوگوں کا انجام بیان کیا ہے جو صرف انہی کے طالب ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اعمال صالحہ کے بدلے میں جس کا مطمع نظر صرف دنیا کی زندگی اور اس کا عیش و آرام اور ٹھاٹھ باٹھ ہوتا ہے، تو اللہ اسے ان اعمال کا بدلہ اس کی نیت کے مطابق دیتا ہے، اس میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے، لیکن آخرت میں انہیں ان اعمال صالحہ کا کوئی اچھا بدلہ نہیں ملے گا، بلکہ نفاق اور ریا کاری کی وجہ سے جہنم میں ڈال دیے جائیں گے، قرآن کریم نے اس مضمون کو سورۃ الاسرء آیات (18، 19، 20) میں اور سورۃ الشوری آیت (20) میں بھی بیان کیا ہے کہ جو آدمی نیک کاموں کے ذریعے دنیاوی فائدوں کا طلبگار ہوتا ہے، اللہ اسے اس کی نیت کے مطابق اس کا بدلہ دنیا میں چکا دیتا ہے، لیکن آخرت میں اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، اور جو آدمی آخرت کا طلبگار ہوتا ہے، اللہ اسے جنت عطا کرے گا۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہزار کوشش کے باوجود آدمی کی دنیاوی خواہش پوری نہیں ہوتی ہے، اسی لیے قرطبی نے لکھا ہے کہ اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت اور سورۃ شوری کی آیت (20) اور سورۃ آل عمران کی آیت (145) مطلق آیتیں ہیں، جن کی تفسیر سورۃ الاسراء کی آیت (18) سے ہوتی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کہ جو آدمی دنیا کا عارضی فائدہ چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں اور جتنا چاہتے ہیں دیتے ہیں، انتہی۔ یعنی اللہ کسی کو نہیں بھی دیتا ہے۔