وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ
اور یقیناً اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے کوئی رحمت چکھائیں، پھر اسے اس سے چھین لیں تو بے شک وہ یقیناً نہایت ناامید، بے حد ناشکرا ہوتا ہے۔
(10) یہ اور اس کے بعد کی دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی بالعموم ایک مذموم صفت کو بیان کیا ہے، اور اس سے ان مؤمنین کو مستثنی قرار دیا ہے جو اپنی زندگی میں کسی بھی حال میں صبر کا دامن نہیں چھوڑتے اور عمل صالح کرتے رہتے ہیں۔ وہ مذموم صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی انسان کو نعمت دے کر پھر کسی سبب سے اس سے چھین لیتا ہے تو فورا ہی اس کی رحمت سے ناامید ہوجاتا ہے اور ناشکری اور اللہ کی برائی بیان کرنے پر اتر آتا ہے، اور اگر اسے بیماری اور تکلیف کے بعد صحت، اور محتاجی کے بعد خوشحالی سے نوازتا ہے تو کہنے لگتا ہے کہ اب کیا ہے، اب تو آرام و راحت ہے اور عیش و خوشحالی ہے، اور اس خوشحالی میں ایسا مگن ہوجاتا ہے کہ اس نعمت پر اپنے خالق و رازق اور آقا و مالک کا شکریہ ادا کرنے کا خیال بھی اس کے دل و دماغ میں نہیں گزرتا، لیکن جو مؤمنین تکلیف کی حالت میں صابر اور آرام کی حالت میں اپنے رب کے شاکر ہوتے ہیں، اور ہر حال میں عمل صالح کرنا ان کا شیوہ ہوتا ہے، وہ نہ تو مصیبت کے و قت جزع فزع کرتے ہیں اور نہ ہی عیش و آرام کی حالت میں اس طرح ترنگ میں آتے ہیں کہ اللہ کو ہی بھول جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے ان نیک بندوں سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔ اس معنی کی تائید میں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مؤمن کو کوئی حزن و ملال لاحق ہوتا ہے، کوئی تکلیف پہنچتی ہے، حتی کہ اگر اسے کوئی کانٹا چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (مسند احمد) اور صحیحین میں ایک دوسری حدیث ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ مؤمن کے بارے میں ہر فیصلہ اس کے حق میں خیر لیے ہوتا ہے، اگر اسے کوئی خوشی ملتی ہے اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے، اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے، اور یہ شرف و عزت مؤمن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے۔