فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
پھر اگر تو اس کے بارے میں کسی شک میں ہے جو ہم نے تیری طرف نازل کیا ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لے جو تجھ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں، بلاشبہ یقیناً تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے حق آیا ہے، سو تو ہرگز شک کرنے والوں سے نہ ہو۔
(61) یہاں مخاطب نبی کریم (ﷺ) ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو وحی کی صداقت میں کوئی شک تھا، بلکہ یہ قرآن کا ایک اسلوب ہے جس سے مقصود آپ کی قوت یقین اور دل کے اطمینان میں اضافہ کرنا ہے، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تھا یعنی میں چاہتا ہوں کہ میرے اطمینان قلب میں اضافہ ہوجائے۔ عبدالرزاق اور ابن جریر نے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا : مجھے نہ ذرہ برابر شک ہے اور نہ ہی میں کسی سے پوچھوں گا، جو لوگ کتاب پڑھتے ہیں، سے مراد یہود و نصاری ہیں۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے خود گواہی دی ہے کہ یہ قرآن برحق کتاب ہے جسے اللہ نے نازل کیا ہے، اس لیے میرے نبی، آپ کو، آپ کی امت کو، اور تمام سامعین کو اس کی حقانیت میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں ہونا چاہیے، اور نہ ان لوگوں میں ہونا چاہیے جو اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں، اس لیے کہ اس کا انجام دنیا اور آخرت میں خسارہ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔