وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَن سَبِيلِكَ ۖ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ
اور موسیٰ نے کہا اے ہمارے رب! بے شک تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں بہت سی زینت اور اموال عطا کیے ہیں، اے ہمارے رب! تاکہ وہ تیرے راستے سے گمراہ کریں، اے ہمارے رب! ان کے مالوں کو مٹا دے اور ان کے دلوں پر سخت گرہ لگادے، پس وہ ایمان نہ لائیں، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔
(57) موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کی ہزار کوشش کے باوجود فرعون اور اس کے سرداروں کے کبر و غرور میں کمی نہیں آئی، اور ان کا کفر و عناد بڑھتا ہی جارہا ہے، اور ان کے ایمان لانے کی کوئی امید باقی نہیں رہی ہے، تو انہوں نے ان پر بددعا کردی اور کہا کہ اے ہمارے رب ! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو اس لیے تو اسباب زینت اور مال و دولت نہیں دی تھی کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے روکیں، اے اللہ ! تو ان کی دولت کو تاراج کردے اور ان کے دلوں کو سخت کردے تاکہ اب وہ اسلام لانے کی سوچیں ہی نہیں، یہاں تک کہ تیرا سخت عذاب انہیں آدبوچے، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ بددعا اللہ اور اس کے دین کی خاطر ناراضگی کے سبب اس یقین کے بعد تھی کہ اب فرعونیوں میں کوئی خیر نہیں ہے۔