وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور بدویوں میں سے کچھ وہ ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں قربتوں اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سن لو! بے شک وہ ان کے لیے قرب کا ذریعہ ہے، عنقریب اللہ انھیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
(75) سبھی بادیہ نشین ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں ان میں کچھ مخلص بھی ہوتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں، اور اس امید میں خرچ کرتے ہیں کہ رسول اللہ ان کے لیے دعائے خیر کریں گے، اللہ تعالیٰ نے اسی سورت کی آیت (103) میں فرمایا کہ آپ مؤمنوں کے لیے دعا کیجیے آپ کی دعا ان کے لیے باعث سکون و اطمینان ہے۔ چنانچہ جب کوئی صحابی صدقہ کرتے تو نبی کریم ان کے لیے دعا کرتے تھے۔ صحیحین کی روایت ہے کہ جب ابو اوفی (رض) نے صدقہ کیا تو آپ نے ان کے اہل و عیال کے لیے خیر و برکت کی دعا کی اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کی۔ (76) اللہ تعالیٰ نے بطور تاکید خبر دی ہے کہ مخلص بادیہ نشین مسلمانوں کا صدقہ اللہ کے نزدیک مقبول ہے اور اس کی قربت کا ذریعہ ہے ان منافقین کے برعکس جنہوں نے صدقہ و زکاۃ کو جرمانہ سمجھا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قربت کی توضیح کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ انہیں اپنی جنت میں داخل کرے گا۔