سورة البقرة - آیت 120

وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور تجھ سے یہودی ہرگز راضی نہ ہوں گے اور نہ نصاریٰ، یہاں تک کہ تو ان کی ملت کی پیروی کرے۔ کہہ دے بے شک اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔ اور اگر تو نے ان کی خواہشات کی پیروی کی، اس علم کے بعد جو تیرے پاس آیا ہے، تو تیرے لیے اللہ سے (چھڑانے میں) نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مدد گار۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

178: اس میں یہود و نصاری کے ایمان لانے سے غایت درجہ کی ناامیدی کی خبر دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )، یہود و نصاری آپ سے کبھی بھی خوش نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ آپ ان کے دین کو قبول کرلیں۔ اس لیے ان کی مرضی حاصل کرنے کی کوشش اچھی بات نہیں، آپ بس اللہ کی رضا طلب کریں، اور ان کے سامنے وہ دین حق پیش کریں جو آپ کو دے کر بھیجا گیا ہے اور جس کے علاوہ کوئی بھی دین، دین حق نہیں ہے۔ 179: یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ یہود و نصاری کے پاس ہدایت نہیں، ہوائے نفس ہے، اور وہ دوسروں کو اسی کی طرف بلاتے ہیں، اور اس میں امت اسلامیہ کے شدید وعید ہے کہ اگر قرآن وسنت کا علم آجانے کے بعد یہود و نصاری کی راہ اپنائیں گے تو اللہ کے عذاب سے انہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس آیت کے ضمن میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو محض مداہنت کی بنیاد پر کسی کی رائے کو قرآن و سنت پر ترجیح دیتے ہیں یا سنت کو پس پشت اس لیے ڈال دیتے ہیں کہ کسی امام یا کسی عالم کا قول اس کے خلاف ہے اور قرآن و سنت کی تاویل کرتے ہیں ان کے معانی و مفاہیم کو بدل دیتے ہیں تاکہ کوئی منافق حاکم وقت ناراض نہ ہوجائے۔ گویا کوئی بھی آدمی اگر کسی انسان کی مرضی یا رائے کو مقدم کرنے کے لیے قرآن اور رسول اللہ کی سنت کو نظر انداز کردیتا ہے، وہ اس آیت کے ضمن میں آئے گا، اور آیت میں موجود تہدید و وعید اس کو شامل ہوگی۔