قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔
(23) اوپر کی آیتوں میں مشرکین سے متعلق احکام بیان کیے گئے اور آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ﷺ) کو حکم دیا کہ ان سے اور ان کے معاہدوں سے اظہار براءت کردیں اور اظہار براءت کے چارماہ بعد انہیں جزیرہ عرب میں نہ رہنے دیں اور جنگ کرکے انہیں قتل کریں نیز مسجد حرام میں ان کا داخلہ ممنوع کردیں۔ اس آیت کریمہ سے اہل کتاب کے متعلق احکام کا آغاز ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ مشر کین کے تصیفہ کے بعد اس علاقہ میں رہنے والے اہل کتاب سے جنگ کی جائے یہاں تک کہ وہ یا تو اسلام قبول کرلیں یا جزیہ دینے پر راضی ہوجائیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ جب نبی کریم (ﷺ) کو اہل روم سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اور آپ غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہوگئے۔ کلبی کا قول ہے کہ یہ آیت بنوقریظہ اور بنو نضیر کے بارے میں نازل ہوئی اور آپ نے ان کے ساتھ جزیہ لینے کی شرط پر مصا لحت کرلی اور یہ پہلا جزیہ تھا جو مسلما نوں کو ملا اور مسلمانوں کے ہاتھوں اہل کتاب کی پہلی ذلت ورسوائی تھی۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ پہلی آیت ہے جو 9 ھ میں اہل کتاب یعنی یہود ونصاری سے جنگ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ۔ آپ (ﷺ) نے تمام مسلما نوں کو اہل روم سے جنگ کی تیاری کا حکم دیا اور اطراف مدینہ کے قبائل عرب کو بھی فوج میں شریک ہونے کا حکم دیا تقریبا تیس ہزار افراد جمع ہوگئے منافقین مدینہ سے بعض شریک نہیں ہوئے وہ زمانہ خشک سالی اور شدید گرمی کا تھا رسول اللہ (ﷺ) اہل روم سے جنگ کی نیت سے شام کی طرف روانہ ہوئے یہاں تک کہ تبوک پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر بیس دن قیام کیا پھر اللہ کے حکم سے مدینہ واپس آگئے اس سورت کی ابتدا میں بتایا جاچکا ہے کہ جب قیصر روم کو رسول اللہ(ﷺ) کے آنے کی خبر ہوئی تو میدان چھوڑ کر اپنی فوج کی ساتھ بھاگ کھڑا ہو اور جنگ نہیں ہوئی لیکن اس جنگ کا جو مقصد تھا وہ پورا پورا حاصل ہوا اور وہ تمام علاقے مسلمانوں کے زیر تصرف آگئے۔ جزیۃ اس مال کو کہتے ہیں جو اہل کتاب اور دیگر کفار سالانہ مسلمانوں کو اس عوض میں دیتے ہیں کہ مسلمان ان سے قتال نہیں کریں گے اور مسلمانوں کے درمیان انہیں رہنے کی اجازت دی جائے گی ان کی جانیں اور ان کا مال محفوظ رہے گا اور اس کی مقدار مالدار متوسط اور فقیر کے اعتبار سے گھٹتی بڑھتی ہے جس کی تعیین مسلمان حاکم یا اس کا نمائندہ کرے گا۔ علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے ہی لیا جائے گا یا دوسرے کافروں سے بھی۔ ابو حنیفہ، شافعی احمد اور سفیا ن ثوری کا خیال ہے کہ اہل کتاب کے علاوہ کسی سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا یہ لوگ مجوس کو بھی اہل کتاب میں شمار کرتے ہیں اس لیے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا اور مالک اور اوزعی کے رائے ہے کہ تمام کافروں سے جزیہ لیاجائے گا۔