أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد کرنا اس جیسا بنا دیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔ یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
( 16) ابن ابی حاتم اور حافظ ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ مشرکین مکہ نے کہا: بیت اللہ کو آباد کرنا اور حاجیوں کو پانی پلانا ان لوگوں کے اعمال سے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور جہاد کیا ، اور انہیں اس بات پر فخر تھا اور بڑے کبر میں مبتلا تھے کہ وہ اہل حرم ہیں اور اسے آباد کرتے ہیں تو اللہ نے اس آیت کے ذریعہ اللہ پر ایمان اور رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ جہادفی سبیل اللہ کو مشرکین کے ان اعمال پر ترجیح دی جن کا ذکر اوپر آیا ہے اور صراحت کردی کہ حرم کی دیکھ بھال اور حاجیوں کو پانی پالا نا شرک کے ہوتے ہوئے بے کار ہیں اور قیامت کے دن کے لیے نفع بخش نہیں ہوں گے ۔ امام مسلم نے نعمان بن بشیر سے روایت کی ہے کہ میں منبر رسول کے پاس بیٹھا تھا تو ایک آدمی نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد یہی کافی ہے کہ مسجد حرام کو آباد کروں دوسرے نے کہا جہاد فی سبیل اللہ اس سے بہتر ہے جو تم نے کہا ہے توعمر نے انہیں ڈانٹا اور کہا ہے کہ تم لوگ منبر رسول کے پاس جمعہ کے دن اپنی آوازیں بلند نہ کرو میں جمعہ کے بعد رسول اللہ (ﷺ) سے اس بارے میں پوچھوں گا تو اللہ نے یہ آیت نازل کی اور بتایا کہ ایمان بااللہ اور جہاد فی سبیل اللہ حاجییوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی دیکھ بھال سے کئی گنازیادہ افضل ہے اس لیے کہ ایمان دین کی اصل اور بنیاد ہے بغیر اس کے اعمال قبول نہیں ہوتے اور جہاد فی سبیل اللہ دین کا سب سے اونچا عمل ہے اللہ تعالی اسی کے ذریعہ دین اسلام کی حفاظت کرتا ہے اور باطل کو سرنگوں کرتا ہے۔