أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِن دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم چھوڑ دیے جاؤ گے، حالانکہ ابھی تک اللہ نے ان لوگوں کو نہیں جانا جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا اور نہ اللہ کے اور نہ اس کے رسول کے اور نہ ایمان والوں کے سوا کسی کو راز دار بنایا اور اللہ اس سے پورا باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔
(14) اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دینے کے بعد مسلمانوں سے بطور تاکید فرمایا : کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں ایسی آزمائش میں نہیں ڈالا جائے گا جس کے ذریعہ صادق وکاذب اور مؤمن اور منافق کے درمیان تمیز ہوجائے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جاننا چاہتا ہے جو اللہ کا حکم بلند کرنے کے لیے جہاد کرتے ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول اور مؤمنوں کے علاوہ کسی کا فرکو اپنا دوست نہیں بناتے، قرآن کریم کی کئی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ مشروعیت جہاد کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ اللہ کے فرمانبردار اور نافرمانبر داربندے پہچانے جائیں ،۔ سورۃ عنکبوت آیت (2) میں فرمایا ہے : اور سورۃ بقرہ آیت (214) میں فرمایا ہے : ان آیتوں میں یہی بات کہی گئی ہے کہ اللہ اپنے مؤمن بندوں کے ضرور آز ماتا ہے تاکہ مخلص وغیر مخلص مؤمن ومنافق اور صادق وکاذب میں فرق ہوسکے۔