وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
اور اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کی طرف صاف اعلان ہے کہ اللہ مشرکوں سے بری ہے اور اس کا رسول بھی۔ پس اگر تم توبہ کرلو تو وہ تمھارے لیے بہتر ہے اور اگر منہ موڑو تو جان لو کہ یقیناً تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں اور جنھوں نے کفر کیا انھیں دردناک عذاب کی بشارت دے دے۔
پہلی آیت میں اور اس آیت کے معنی میں فرق یہ ہے کہ پہلی آیت میں مشرکوں سے براءت ثابت ہوجا نے کی خبر دی گئی ہے جبکہ اس آیت میں ثابت شدہ براءت کے اعلان کو واجب بتایا گیا ہے اسی طرح براءت کا تعلق ان مشرکوں سے تھا جن کے ساتھ مسلمانوں کا کوئی معاہدہ تھا اور اعلان براءت تمام لوگوں کے لیے عام تھا تاکہ سب کو خبر ہوجائے۔ )یوم حج اکبر) سے مراد ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ہے۔ صحیحین میں ہے کہ ابوبکر اور علی رضی اللہ عنہما نے براءت کا اعلان یوم النحر یعنی دس تاریخ کو کیا تھا۔ سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: حج اکبر کا دن قربانی کا دن ہے۔ ابو ہریرۃ اور بہت سے صحابہ کی یہی رائے ہے۔