بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ
اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے ان مشرکوں کی طرف بری الذمہ ہونے کا اعلان ہے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا۔
تفسیر سورۃ التو بہ نام ؛ بعض مفسرین نے اس کے چودہ نام بتائے ہیں، ان میں دونام زیادہ مشہور ہیں " التوبہ اور براءۃ" اس لیے کے اسی لفظ کے ذریعے اس سورت کی ابتدا ہوئی ہے اور اس سورت کے اکثر وبیشتر مضامین کا تعلق مشرکین سے اعلان براءت سے ہے اور توبہ اس لیے کہ اس سورت میں آٹھ سے زیادہ بار توبہ کا ذکر آیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت مدنی ہے اس میں ایک سوانتیس آیتیں ہیں امام بخاری نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ براءت آخری سورت ہے جو رسول اللہ (ﷺ) پر نازل ہوئی۔ اس سورت کی آیتوں کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ان تاریخی حقائق وواقعات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے جن کے پیش نظر یہ سورت نازل ہوئی تھی، رمضان 8 ھ میں رسول اللہ (ﷺ) نے مکہ فتح کرلیا جودیار عرب سے شرک وکفر کے خاتمہ کا ابتدائی اعلان تھا اس کے بعد ہی غزوہ حنین واقع ہوا جس میں قبیلہ ہو ازن نے اپنی پوری قوت جھونک دی اور شروع میں مسلمانوں کی پسپائی کے باوجود بالآخر ہو ازن کے قدم اکھڑ گئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مسلمانوں کو فتح دی اس غزوہ کے بعد مشر کین عرب کی رہی سہی قوت کچل دی گئی، اس کے قبل جمادالا ولی 8 ھ میں عربوں کو شمالی علاقہ میں (مؤتہ) کے مقام پر مسلما نوں کی تین ہزار فوج ایک لاکھ رومیوں سے ٹکڑا کر داد شجاعت دے چکی تھی اور اس علاقہ کے کافروں اور اہل کتاب کی نگاہوں میں اسلام اور مسلمانوں کا رعب ودبدبہ بہت حد تک بیٹھ چکا تھا، اور جب رجب 9 ھ میں رسول اللہ (ﷺ) تیس ہزار کی فوج لے کر قیصر کا مقابلہ کرنے کے لئے شام کی طرف روانہ ہوئے اور تبوک کے مقام پر خیمہ زن ہوئے اور قیصر مقابلہ کرنے سے پہلے ہی بھاگ کھڑا ہوا اور آس پاس کے چھوٹے چھوٹے عرب ملوک وامراہ رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آکر اسلام کا اعلان کرنے لگے نیز نصاری جو اسلام نہ قبول کرنے کی صوت میں جز یہ دینے پر رضامندی ظاہر کرنے لگے تو عرب کا نقشہ ہی بدل گیا اور پورا علاقہ سمجھ گیا کہ اب اس علاقہ سے شرک کا خاتمہ ہوچکا اب صرف اس کا دستوری اعلان باقی ہے اور جو منافقین مدینہ اسلام کی خلاف ریشہ دوانیاں کرتے رہے وہ بھی سمجھ چکے تھی کہ اب ان کا دور ختم ہوگیا یہ پوری سورت انہی حالات وظروف کے ارد گرد گھومتی ہے۔ قرآن کریم کی یہ واحد سورت ہے جس کے ابتداء میں بسم اللہ نہیں لکھی جاتی۔ علمائے تفسیر نے اس کے کئی اسباب بیان کیے ہیں: حافظ ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے رایت کی ہے میں نے علی بن ابی طالب (رض) سے پوچھا سورۃ "براءت " کے شروع میں بسم اللہ کیوں نہیں لکھی گئی ہے تو انہوں نے کہا کہ بسم اللہ میں اللہ کی طرف سے امان ہے اور یہ سورت مشرکوں اور کافروں کے خلاف اعلان جنگ ہے مبر دو غیرہ نے اس کی جو تو جہیہ بیان کی ہے وہ بھی تقریبا اسی رائے کی تا ئید کرتی ہے ان کا کہنا ہے کہ عربوں میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی قبیلہ کسی دوسرے قبیلہ کے ساتھ کئے گئے سابقہ معاہدہ کو توڑنا چاہتا تو مخالف قبیلہ کو اس بارے میں جو خط لکھتا اس کی ابتداء بسم اللہ سے نہیں کرتا ، اسی لئے جب سورۃ براءۃ نازل ہوئی تو رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مکہ بھیجا تاکہ اسے پڑھ کر مشرکین عرب کو سنا دیں چناچہ انہوں نے اسے بغیر بسم اللہ کے پڑھ کر لوگوں کو سنایا۔ (1) امام احمد نے ابو ہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول للہ (ﷺ) نے علی بن ابی طالب کو اہل مکہ کی طرف اعلان براءت دے کر بھیجا تو میں ان کے ساتھ تھا، ہم لوگ حجاج کے درمیان گھوم گھوم کر اعلان کرتے تھے کہ کافر جنت میں داخل نہیں ہوگا اور ننگا آدمی بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا نیز جس کسی کا رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ کوئی معاہدہ ہے تو اس کی مدت اب سے چارماہ تک رہے گی اس مدت کے گذر جانے کے بعد اللہ اور اس کے رسول اللہ (ﷺ) مشرکوں سے بری ہیں، اور اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ کا حج نہیں کرے گا قرآن کے اس اعلان براءت کے بعد تمام مسلمانوں پر کافروں کے ساتھ اپنے سابقہ معاہدوں سے براءت کا اظہار ضروری ہوگیا اس لئے کہ اللہ اور اسکے رسول ان معاہدوں سے ( مشرکوں کی طرف نقص عہد کی وجہ سے) جب بری ہوگئے تو مسلمانوں کے لے ہرگز جا ئز نہیں رہا کہ مشرکوں کے ساتھ کیا گیا کوئی سابقہ معاہدہ با قی رکھیں۔