يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
اے نبی! تجھے اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کو بھی جو تیرے پیچھے چلے ہیں۔
(54) آیت (62) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو بشارت دی تھی کہ ا گر معاہدہ کے بعد دشمن آپ کو دھوکہ دیں گے تو اللہ آپ کے لیے کافی ہوگا، اس آیت میں اس بشارت کو تمام امور اور تمام حالات کے لیے عام کردیا گیا ہے حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے زادالمعاد کے مقدمہ میں اس آیت کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اکیلا اللہ آپ کے لیے اور آپ کے پیر وکار مؤمنوں کے لیے کافی ہے اب اللہ کے علاوہ آپ کو کسی کی ضرورت نہیں پڑے گی، آگے لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے اس آیت کی تفسیر میں بڑی زبر دست ٹھوکر کھائی ہے اور کہا ہے کہ اللہ اور مؤمنین آپ کے لیے کافی ہیں یہ معنی سراسر غلط ہے، اس لیے کہ توکل تقوی اور عبادت کی طرح (کفایت) بھی اللہ کے ساتھ خاص ہے جہاں تک تائید کا تعلق ہے تو اللہ اپنے نبی کی تائید کبھی خود کرتا ہے اور کبھی مؤمنوں کے ذریعہ کراتا ہے، اسی لیے آیت (62) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یعنی آپ کے لیے صرف اللہ کافی ہے۔ اس کے بعد فرمایا یعنی اللہ نے آپ کی تائید خود بھی کی اور مؤمنوں کے ذریعہ بھی کرائی اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کے جن اہل توحید اور اہل توکل بندوں نے صرف اللہ کو اپنے لیے کافی مانا اللہ نے سورۃ آل عمران کی آیت (173) میں ان کی تعریف کی اور فرمایا وہ لوگ جن سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کرلیے ہیں تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے ان کا ایمان بڑھادیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کار ساز ہے۔ اللہ کے ان نیک بندوں نے حسبنا اللہ روسولہ یعنی اللہ اور اس کا رسول ہمارے لیے کافی ہے نہیں کہا بلکہ یہ کہا کہ صرف اللہ ہمارے لیے کافی ہے۔