وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ ۚ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کے لیے ہوجائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بے شک اللہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اسے خوب دیکھنے والا ہے۔
(33) اللہ نے مسلمانوں کے خطاب کرکے فرمایا کہ تم لوگ اہل کفر وشرک سے جنگ کرو یہاں تک کہ مشرک کا خاتمہ ہوجائے ۔یا کافروں کی جانب سے مسلمانوں کی آزمائش کا دور ختم ہوجائے اور ایک اللہ کی عبادت عام ہوجائے۔ اس کے علا وہ کسی کی عبادت نہ کی جائے اور اگر مشر کین کفر ومعاصی سے ظاہری طور پر باز آجائیں گے تو تم لوگ بھی جنگ کرنے سے رک جاؤ ان کے باطنی اعمال کو اللہ جانتا ہے، وہی ان کا حساب کرے گا اور ان کے کیے کے مطابق انہیں بدلہ دے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ آیت (5) میں فرمایا ہے کہا گر تو بہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ دیں تو انہیں چھوڑدو۔ صحیحین کی روایت ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا مجھے لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہہ دیں جب وہ کلمہ پڑھ لیں گے تو ان کا خون اور مال محفوظ ہوجائے گا، سوائے اس کے کہ اس پر کوئی شرعی حق ہو اور قیامت کے دن اللہ ان سے حساب لے گا اور صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت ہے کہ جب اسامہ بن زید (رض) نے ایک آدمی کو اس کے لا الہ الا اللہ کہنے بعد قتل کردیا، تو آپ (ﷺ) نے کہا کہ قیامت کے دن کلمہ لا الہ الا اللہ کا کیا کروگے؟ تو اسامہ نے کہا یا رسول اللہ اس نے صرف جان بچانے کے لیے ایسا کیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھ لیا تھا اور بار بار کہتے رہے کہ قیامت کے دن لا الہ الا اللہ کا کیا کر وگے ؟ اسامہ کہتے ہیں کہ میں نے تمنا کی کہ کاش میں آج ہی اسلام میں داخل ہوا ہوتا۔