وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِندَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً ۚ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ
اور ان کی نماز اس گھر کے پاس سیٹیاں بجانے اور تالیاں بجانے کے سوا کبھی کچھ نہیں ہوتی۔ سو عذاب چکھو اس وجہ سے جو تم کفر کرتے تھے۔
(29) مشرکین مکہ بیت اللہ کے پاس جمع ہو کر سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے تاکہ مسلمان خشوع وخضوع کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکیں زہری کہتے ہیں کہ سیٹی اور تالی بجاکر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے، اور مجاہد کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ (ﷺ) نماز شروع کرتے تو مشر کین سیٹیاں اور تالیاں بجانا شروع کرتے تھے۔ حافظ ابن القیم نے اپنی کتاب اغاثۃ اللہفان میں لکھا ہے کہ تالیاں اور سیٹیاں بجاکر اللہ کی قربت حاصل کرنے والے، اور نمازیوں، ذکر کرنے والوں اور قرآن کی تلاوت کرنے والوں کو تشویس میں مبتلا کرنے والے انہی مشر کین مکہ کے مانند ہیں، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ تالی بجانا ڈھول اور تاشے پیٹنا اور بانسری وغیرہ بجانا اللہ کے دین کا حصہ اور اس کی قربت کا ذریعہ ہرگز نہیں ہوسکتا دین اسلام سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں ہے نہ نبی کر یم (ﷺ) نے ان باتوں کو مشروع قرار دیا نہ خلفائے اربعہ نے اور نہ کسی امام نے اور نہ ہی کبھی ان میں سے کسی نے بکسی بھی دور میں ایسا کی تھا۔ افسوس ہے کہ امت اسلامیہ کی ایک بڑی تعداد انہیں گناہوں میں مبتلا ہے اور گمان کرتے ہیں کہ وہ رقص وغناء کے ذریعہ اللہ کی قربت حاصل کرتے ہیں (ما أشبه الليلة بالبارحة)یقینا یہ لوگ مشرکین مکہ سے کم نہیں ہیں۔