وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَٰذَا ۙ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
اور جب ان پر ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم نے سن لیا، اگر ہم چاہیں تو یقیناً اس جیسا ہم بھی کہہ دیں، یہ تو پہلے لوگوں کی فرضی کہانیوں کے سوا کچھ نہیں۔
(25) یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو رسول اللہ (ﷺ) کی بعثت سے پہلے فارس چلا گیا تھا اور وہاں سے رستم واسفند کے واقعات پر مشتمل کتاب لے کر آیا تھا جب رسول اللہ (ﷺ) مجلس سے اٹھ جاتے تو یہ ملعون وہیں بیٹھ کر اس کتاب سے واقعات سناتا اور کہتا کہ بتاؤ تو سہی کس کی بات زیادہ دلچسپ ہے یہ شخص غزوہ بدر میں مقد اد بن اسود (رض) کے ہاتھوں پابند سلاسل ہوگیا اور پھر رسول اللہ (ﷺ) کے حکم سے اس کی گردن ماردی گئی۔ آیت میں جمع کا صیغہ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ تمام کفار قریش زبان قال اور زبان حال سے وہی کہتے تھے جو نضر کہتا تھا کہ اگر ہم چاہیں تو ایسا قرآن لا سکتے ہیں، یہ ان کا غرور باطل تھا اس لیے کہ قرآن نے تو انہیں کتنی بار چیلنج کیا تھا، اور کوئی اس کا جواب نہ دے سکا تھا۔