يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اور رسول کی دعوت قبول کرو، جب وہ تمھیں اس چیز کے لیے دعوت دے جو تمھیں زندگی بخشتی ہے اور جان لو کہ بے شک اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان رکاوٹ بن جاتا ہے اور یہ کہ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
(17) اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ جب رسول اللہ (ﷺ) تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہارے لیے زندگی کے مترادف ہو تو ان کی بات مان جاؤ کیونکہ ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور ان کی بات ماننے ہی میں ہر بھلائی ہے آیت میں سے کس چیز کی طرف اشارہ ہے جو مسلمانوں کو زندگی دیتی ہے ؟ اس بارے میں علماء کے کئی اقوال ہیں : کسی نے اس سے قرآن کریم مراد لیا ہے اس لیے کہ اسی جہاد کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ذلت کے بعد عزت دی اور ان دشمنوں سے نجات دلائی جنہوں نے مکہ میں ان کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی، جہاد فی سبیل اللہ ہر دور میں مسلمانوں کے لیے زندگی کے مترادف رہے گا، مسلمانوں نے جب بھی اس سے پہلو تہی کی ذلت ورسوائی ان کا نصیب بن گئی اور جب بھی انہوں نے جہاد کی آواز پر لبیک کہا، فتح وکامرانی نے ان کے قدم چومے، جہاد ہی وہ عمل صالح ہے کہ اگر کوئی مسلمان شہید ہوجاتا ہے تو اسے ابدی زندگی مل جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کہ درحقیت آخرت کی زندگی ہی دائمی زندگی ہے، معلوم ہوا کہ جہاد فی سبیل اللہ دنیاوی اور اخروی ہر اعتبار سے مسلمانوں کے لیے زندگی کے مترادف ہے۔ (18) اللہ تعالیٰ نے انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، اس کے کئی معانی بیان کیے گئے ہیں : 1۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ انسان کے دل میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے، اگر ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کے اور کفر کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، اور اگر گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے اور ایمان کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، اسی وجہ سے نبی کریم (ﷺ) کثرت سے دعا کرتے تھے کہ اے دلوں کے پھیر نے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر قائم وثابت رکھ، صحابہ کرام نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! ہم آپ پر دین اسلام پر ایمان لے آئے تو کیا آپ پھر بھی ہمارے بارے میں ڈرتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں انسا نوں کے دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتے ہیں وہ جیسے چاہتا ہے، انہیں الٹتا پھیر تا ہے۔ (مسلم، حاکم، مسند احمد ترمذی ) دوسرا معنی یہ ہے کہ آیت کے اس حصہ میں موت آنے سے پہلے طاعت وبندگی کی ترغیب دلائی گئی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ جب اپنے بندہ کو موت دے دتیا ہے تو عمل صالح کا ہر دروازہ بند ہوجاتا ہے اس لیے زندگی کو غنیمت جانو اور اللہ اور رسول کی اطاعت میں اخلاص پیدا کرو۔ 3۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بہت ہی زیادہ قریب ہے، جیسا کہ اللہ نے سورۃ ق آیت (16) میں فرمایا ہے کہ ہم انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کی چھپی باتوں کو جانتا ہے اس لیے بندہ کو اپنے اللہ سے کبھی بھی غافل نہیں ہونا چایئے۔