هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ ۖ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، تاکہ وہ اس کی طرف (جاکر) سکون حاصل کرے، پھر جب اس نے اس (عورت) کو ڈھانکا تو اس نے ہلکا سا حمل اٹھا لیا، پس اسے لے کر چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ بھاری ہوگئی تو دونوں نے اللہ سے دعا کی، جو ان کا رب ہے کہ بے شک اگر تو نے ہمیں تندرست بچہ عطا کیا تو ہم ضرور ہی شکر کرنے والوں سے ہوں گے۔
(119) اللہ تعالیٰ نےا ہل کفر اور اہل شرک کو ان کی جاہلانہ جرات پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیروں کو شریک بنانے کی جرات کیسے کرتے ہیں ؟ اور ان کی عقل اسے کیسے قبول کرلیتی ہے؟ اس لیے کہ ان کا خالق اللہ ہے جس نے انہیں آدم سے پیدا کیا، اور آدم سے ان کی بیوی حواکو اور پھر ہر مرد کے لیے اسی کے جنس سے اس کی بیوی کو پیدا کیا، تاکہ اس کی قربت سے اسے سکون حاصل ہو، اس لیے کہ اگر بیوی ہم جنس نہ ہوتی تو دونوں ایک دوسرے سے انسں نہیں حاصل کر پاتے، تو جس اللہ نے انہیں اور ان کی بیوی کو پیدا کیا وہی ذات واحد عبادت کے لائق ہے، پھر مشرک کی ایک اور حالت یہ ہے کہ جب وہ اپنی بیوی سے ہم بستری کرتا ہے، اور حمل قرار پاجا تا ہے اور کئی مراحل سے گذر کر جب پیٹ میں بچہ حرکت کرنے لگتا ہے تو دونوں میاں بیوی مل کر دعا کرتے ہیں کہ اگر اللہ نے صحیح سالم بچہ دیا تو اللہ کا خوب شکر ادا کریں گے، لیکن صحیح سالم ہونے کے بعد دونوں کہنا شروع کرتے ہیں کہ یہ تو ہمارے بتوں اور معبودوں کی دین ہے، جیسا کہ ہر زمانے میں مشر کین کرتے آئے ہیں کہ اولاد دینے والا اور روزی رساں اللہ کے سوا غیر کو مانتے رہے ہیں۔ بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں ٹھو کر کھائی ہے اور واہیات روایات وآثار کی بنیاد پر اس آیت کا مصداق آدم وحوا کو قرار دیا ہے، جو صحیح نہیں ہے، ابن جریر، حافظ ابن کثیر اور صاحب محاسن التنزیل وغیر ہم نے اس پر سخت نکیر کی ہے، اور آیت کی وہی تفسیر بیان کی ہے جو ابھی اوپر گذر ری ہے، حسن بصری سے بھی یہی تفسیر منقول ہے۔