فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَٰذَا الْأَدْنَىٰ وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ ۚ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لَّا يَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ ۗ وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
پھر ان کے بعد ان کی جگہ نالائق جانشین آئے، جو کتاب کے وارث بنے، وہ اس حقیر دنیا کا سامان لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں ضرور بخش دیا جائے گا اور اگر ان کے پاس اس جیسا اور سامان آجائے تو اسے بھی لے لیں گے، کیا ان پر کتاب کا عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہیں گے اور انھوں نے جو کچھ اس میں ہے پڑھ لیا ہے اور آخری گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ڈرتے ہیں، تو کیا تم نہیں سمجھتے؟
(103) بنی اسرائیل کا ہر دور میں یہی حال رہا، یہاں تک کہ نبی (ﷺ) کا زمانہ آگیا، آپ (ﷺ) کے زمانے میں جو یہودی تھے، انہی کا حال بیان کیا گیا ہے کہ وہ نہایت ناخلف لوگ تھے کہ ہر خوبی ان سے رخصت ہوگئی تھی، اور تورات کے احکام کو بدل کر دنیا کمانا ان کا پیشہ ہوگیا تھا، رشوت لے کر تورات کے خلاف فیصلے کرتے تھے، اور اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے لیے کہتے تھے کہ اللہ ان کا مواخذہ نہیں کرے گا، انہیں معاف کردے گا، حالا نکہ وہ اپنے دل میں اس بات پر مصر ہوتے تھے کہ اگر کسی نے دوبارہ بھی رشوت دی تو اسے لے لیں گے، اور دل سے تائب نہیں ہوتے تھے، ان کی دینی اور اخلاقی پستی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان کا تحکمانہ انداز کہ وہ انہیں معاف کردے گا، اللہ پر افتراپردازی تھی، اور اس پر عہد ومیثاق کے خلاف بات تھی، جو ان سے لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں صدق بیانی سے کام لیں گے، اور انہیں تورات کے مطالعہ سے اس عہد کا علم بھی تھا ایسا نہیں تھا کہ وہ اسے جانتے نہیں تھے، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ آخرت کی کامیابی، دنیاوی حقیر مفادات سے زیادہ بہتر ہے۔