وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ۚ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ
اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی، بے شک ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔ فرمایا میرا عذاب، میں اسے پہنچاتا ہوں جسے چاہتا ہوں اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے، سو میں اسے ان لوگوں کے لیے ضرور لکھ دوں گا جو ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور (ان کے لیے) جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔
(88) پہلے موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کے گنا ہوں کی معافی مانگی اور اس کے بعد آخرت کی ہر بھلائی مانگی، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کا یہ جواب دیا کہ میں گناہ گاروں میں سے جسے چاہتا ہوں عذاب دیتا ہوں، اور اس کی حکمت کو میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور اس کی بنیاد عدل وانصاف پر ہوتی ہے، اور جسے چاہتا ہوں معاف کردیتا ہوں لیکن میری رحمت تو ہر نیک وبد اور تمام مخلوقات کے لئے عام ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل چیز عذاب وغضب نہیں بلکہ رحمت ہے اسی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حاملین عرش فرشتوں کی زبانی فرمایا : کہ اے ہمارے رب ! تیری رحمت ہر شے کو شامل اور تیرا علم ہر چیز کو محیط ہے "۔ احمد، مسلم، اور ابو داؤد نے جندب البجلی سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سو حصے ہیں، اس میں سے صرف ایک حصہ رحمت کے ذریعہ تمام مخلوق آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں، اور وحشی جانور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اور ننانوے حصہائے رحمت قیامت کے دن کے لیے مؤخر کردیئے گئے ہیں۔ (89 ) دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز کے لیے عام ہے اسی رحمت عامہ کی وجہ سے دنیا میں ہر جاندار کو رزی ملتی ہے، دنیاوی نعمتوں میں ہر نیک وبد شریک ہے، لیکن آخرت کی نعمت جسے رحمت خاص سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، وہ صرف اللہ کے ان بندوں کے لیے خاص ہوگی جو اس دنیاوی زندگی میں گنا ہوں سے بچیں گے زکاۃ دیں گے اور جو اللہ کی آیتوں پر ایمان لائیں گے اور ان پر عمل کریں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آیت (32) میں فرمایا ہے : کہ دنیا کی زینت اور حلال روزی مؤمنوں کو دنیا میں ملے گی، اور آخرت میں انہی کے لیے خاص ہوگی۔