وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِن بَعْدِي ۖ أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ ۖ وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ ۚ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْدَاءَ وَلَا تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور جب موسیٰ غصے سے بھرا ہوا، افسوس کرتا ہوا اپنی قوم کی طرف واپس آیا تو اس نے کہا بری ہے جو تم نے میرے بعد میری جانشینی کی، کیا تم نے اپنے رب کے حکم سے جلدی کی، اور اس نے تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کے سر کو پکڑ لیا، اسے اپنی طرف کھینچتا تھا۔ اس نے کہا اے میری ماں کے بیٹے! بے شک ان لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھے کہ مجھے قتل کردیتے، سو دشمنوں کو مجھ پر خوش نہ کر اور مجھے ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کر۔
(82) انہوں نے کوہ طور سے واپسی کے بعد دیکھا کہ کچھ کے علاہ سارے بنی اسرائیل بچھڑے کے ارد گرد جمع ہیں اور اس کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں تو اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) اور دیگر مؤمنوں سے کہا کہ تم لوگوں نے میری بڑی بری نیابت کی ہے، چالیس دن تک بھی راہ راست پر قائم نہیں رہ سکے اور بت کی پرستش شروع کردی اور اللہ اور اس کے دین کی خاطر فرط غضب میں تختیوںکو زمین پر پٹخ دیا کہتے ہیں کہ وہ تختیاں پتھر کی تھیں، ٹوٹ گئیں، انہوں نے سمجھا کہ ہارون (علیہ السلام) سے تقصیر ہوئی ہے، اسی لیے ان کے سر کے بال پکڑ کر کھینچنے لگے، لیکن جب انہوں نے اپنا عذر پیش کیا کہ میں نے تو پوری کوشش کی کہ انہیں راہ راست پر رکھوں لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی اور بچھڑے کی پوجا کرنے لگے۔