وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے فرعون کی آل کو قحط سالیوں اور پیداوار کی کمی کے ساتھ پکڑا، تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔
(68) جادوگروں نے شکست کھاجانے اور ان کے ایمان لے آنے کے بعد، فرعون کے لیے یہ بات آفتاب کی طرف واضح ہوچکی تھی کہ موسیٰ اللہ کے نبی ہیں، اور دنیا وآخرت کی بھلائی اسی میں تھی کہ ان پر ایمان لے آتا، لیکن غرور ونخوت اور جھوٹی معبودیت کے زعم میں کفر وعناد پر مصر رہا، تو اللہ تعالیٰ نے پہلے اسے اور اس کی قوم کو قحط سالی میں مبتلا کیا کہ اب بھی شاید تو بہ کی توفیق ہوجائے، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں خوشحالی اور امن وعافیت کی کڑی آزمائش میں مبتلا کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے استکبار میں آگے ہی بڑھتے گئے، جب قحط سالی آئی تو کہنے لگے کہ یہ سب موسیٰ اور بنی اسرائیل کی وجہ سے ہو رہا ہے اور جب خوشحالی آئی تو کہنے لگے کہ ہم تو اس کے حقدار ہیں ہی، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ تمام امور کا مدبر اور ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے، اور خوشحالی اور قحط سالی سب اسی کے اختیار میں ہے، موسیٰ اور بنی اسرائیل کے وجود سے بد شگونی لینا تمہارے کفر کا نتیجہ ہے۔ الغرض ان کا کبر وغرور بڑھتا ہی گیا یہاں تک کہ موسیٰ سے کہا کہ چاہے تم کوئی بھی نشانی لاؤ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے، جب ان کا کفر وعناد اس انتہا کو پہنچ گیا، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا کی اے اللہ ! فرعون کی سر کشی حد سے آگے بڑھ گئی ہے، اور فرعونیوں نے کسی عہد وپیمان کا پاس نہیں رکھا ہے اس لئے اب تو انہیں ایسی سزا دے کہ یہ لوگ میری قوم کے لیے اور بعد میں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بن جائیں، چناچہ اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی، اور شدید طوفان آیا، اور قریب تھا کہ اس سے ہلاک ہوجاتے کہ وہ لوگ دوڑے ہوئے موسیٰ کے پاس آئے اور ان سے دعا کی درخواست کی تاکہ یہ عذاب ٹل جائے، اور وعدہ کیا کہ اگر عذاب ٹل گیا تو ایمان لے آئیں گے، اور بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ جانے دیں گے لیکن جب عذاب ٹل گیا اور موسی (علیہ السلام) نے ان کا وعدہ یاد لایا، تو انکار کر گئے اور اپنے کفر پر مصر رہے، تو اللہ تعالیٰ نے ٹڈی کی فوج بھیجی جس نے ان کے کھیتوں درختوں اور پھلوں کو تباہ کرنا شروع کردیا، جب یہ حال دیکھا تو پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس دوڑے آئے اور پہلے کی طرح ایمان لانے کا وعدہ کیا، لیکن عذاب ٹل جانے کے بعد پھر انکار کر گئے، اسی طرح اللہ نے مسلسل جوؤں، مینڈکوں اور خون کے عذاب میں مبتلا کیا، اور ہر بار تو بہ کا وعدہ کرتے رہے اور عذاب ٹل جانے کے بعد ایمان لانے سے انکار کرتے رہے، اور ان کا یہ وطیرہ اس لیے رہا کہ وہ لوگ واقعی اہل جرائم اور اہل فساد تھے، اور ہر خیر سے محروم تھے۔