وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا ۚ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ
اور تو ہم سے اس کے سوا کس چیز کا بدلہ لے رہا ہے کہ ہم اپنے رب کی آیات پر ایمان لے آئے، جب وہ ہمارے پاس آئیں، اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں اس حال میں فوت کر کہ فرماں بردار ہوں۔
(64) یعنی جو تمہارے نزدیک ہمارا عیب ہے، وہی سب سے بڑی خوبی ہے، اس کے بعد جادوگروں نے اپنے لیے ثابت قدمی اور خاتمہ بالخیر کی دعا کی اور فرعون سے کہا : یعنی اب تو جو کچھ کرنے والا ہے کر گزر، تیرا حکم صرف اسی دنیاوی زندگی میں چلے گا، ہم تو اس امید میں اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہیں کہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے گا، اور جو کچھ ہم سے زبر دستی کرا یا ہے وہ تو جادو ہے اور اللہ ہی بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہ، (طہ :72/73) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں ( اللہ کی مشیت دیکھئے کہ) صبح کو وہ لوگ جادوگر تھے، اور شام کو اللہ کے نیک اور شہید بندے بن گئے۔