قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
کہہ دے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بے شک اس نے یہ کتاب تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتاری ہے، اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہے اور مومنوں کے لیے سرا سر ہدایت اور خوشخبری ہے۔
151: مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیت یہود کے جواب میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے کہا تھا کہ جبریل ان کا دشمن، اور میکائیل ان کا دوست ہے، لیکن اس کے سبب کی تعیین میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کا سبب ایک مناظرہ تھا جو نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نبوت کے بارے میں آپ اور یہود کے درمیان ہوا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ : کچھ یہود آپ کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ سے چند ایسے سوالات کرنا چاہتے ہیں جن کے جوابات نبی کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا۔ آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، لیکن تم لوگ یہ عہد کرو کہ اگر میں تمہارے سوالات کے جوابات صحیح صحیح دے دئیے تو تم لوگ اسلام قبول کرلو گے، انہوں نے کہا : ہاں، چنانچہ آپ نے ان تمام سوالات کے صحیح صحیح جوابات دے دئیے (جن کی تفصیل تفسیر اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہے) اور یہود ان کی صحت کا اعتراف کرتے گئے، آخر میں انہوں نے پوچھا کہ فرشتوں میں آپ کا دوست کون ہے؟ آپ نے فرمایا : جبرائیل، اللہ نے جتنے بھی انبیاء بھیجے ان سب کے دوست جبرائیل تھے، یہ سن کر یہود نے کہا، پھر ہم اور آپ اکٹھے نہیں ہوسکتے، اگر کوئی اور فرشتہ ہوتا تو ہم آپ کی اتباع کرتے اور تصدیق کرتے، آپ نے پوچھا کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ تو ہمارا دشمن ہے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ یہ مناظرہ عمر بن خطاب (رض) اور یہود کے درمیان نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں ہوا تھا، حافظ ابن کثیر نے اسے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے، اور کہا ہے کہ اس کی روایت کی سند عمر اور شعبی کے درمیان منقطع ہے۔ آیت کی تفسیر یہ ہے کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ ان یہودیوں سے کہہ دیجئے جو گمان کرتے ہیں کہ وہ آپ پر اس لیے ایمان نہیں لاتے کہ آپ کے دوست جبرائیل ہیں کہ تمہارا یہ خیال بکواس ہے، اور کبر و عناد پر مبنی ہے، اس لیے کہ جبرائیل اللہ کے پیغامبر ہیں، اور اللہ کے حکم سے آپ کے قلب مبارک پر قرآن اتارتے ہیں، جو گذشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، اور جو مؤمنوں کے لیے ہدایت و بشارت ہے،