سورة الاعراف - آیت 80

وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور لوط کو (بھیجا)، جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم اس بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے جہانوں میں سے کسی نے نہیں کی۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(49) آیت (80 سے (84) تک لوط (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ لوط (علیہ السلام) ہا رون بن آزر کے بیٹے اور ابرہیم (علیہ السلام) کے بھتیجا تھے، ان پر ایمان لانے کے بعد ہجرت کر کے ان کے ساتھ شام چلے گئے تھے، لیکن بعد میں وادی اردن کی بستی، "سدوم" میں سکونت اختیار کرلی تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی بستی والوں کے لیے نبی بناکر بھیجا تھا، کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد چالیس لاکھ تھی، اور کفر وشرک کے علا وہ لواطت جیسی خبیث ترین اخلاقی بیماری میں مبتلا تھے جو بیماری ان سے پہلے دنیا میں نہیں پائی گئی تھی، عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ قوم لوط سے پہلے دنیا میں کسی مرد نے مرد کے ساتھ اپنی خواہش پوری نہیں کی تھی۔ خلیفہ اموی ولید بن عبدالملک بانی جامع دمشق کا قول ہے کہ اگر اللہ نے قوم لوط کا واقعہ بیان نہ کیا ہوتا تو میں گمان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی مرد کسی مرد سے اپنی خواہش پوری کرتا ہے، لوط (علیہ السلام) نے انہیں توحید کی دعوت دی اور اس مہلک اخلاقی مرض سے بھی نجات دلانے کی کو شش کی، لیکن انہوں نے ان کی ایک نہ سنی اور ان کا مذاق اڑایا اور اپنے خبث ظاہر و باطن پر اصرار کی اور لوط (علیہ السلام) کو اس بستی سے نکال دینے کی دھمکی دی ،، تو اللہ تعالیٰ کا عذاب ان پر واجب ہوگیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سدوم اور عمورہ بستیوں پر آگ کی بارش کردی اور پھر انہیں الٹ دیا، اور اس طرح تمام کے تمام لوگ ہلاک ہو گئےاسی جگہ کو آج کل بحرمیت کہا جاتا ہے، صرف لوط (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ چند مؤمن بچ گئے جو اللہ کے حکم سے پہلے ہی اس بستی سے نکل گئے تھے۔ اسلام کی نظر میں لواطت ایک بہت ہی بڑا گناہ ہے، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں گنا ہوں میں سے صرف شرک، زنا، اور لواطت کو نجس اور خبیث سے تعبیر کیا ہے ، ایک دوسری جگہ لکھا ہے کہ زنا اور لواطت کی نجاست دوسری نجاستوں سے بڑھ کر ہے، انتہی، لوطی کی دنیاوی سزا کے بارے میں احمد، ابو داؤد، ترمذی، ابن ما جہ حاکم اور بیہقی وغیر ہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا، اگر تم لوگ کسی کو لواطت کرتے پاؤ تو فاعل اورمفعول دونوں کو قتل کر دو، ابن القصارکا قول ہے، صحابہ کرام کا اجماع ہے کہ لوطی کو قتل کردیا جائے گا، ان کے درمیان صرف قتل کی کیفیت میں اختلاف رہا ہے، امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ لوطی کو پہاڑ سے نیچے گرا دیا جائے گا، اس کے بعد اس پر پتھروں کی بارش کردی جائے گی، امام شافعی کا ایک قول ہے کہ اسے رجم کردیا جائے گا، چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، بعض دوسروں نے کہا ہے کہ اس کا حکم زانی کا حکم ہے، یعنی اگر شادی شدہ ہوگا تو رجم کردیا جائے گا ورنہ سو (100) کوڑے لگائیں جائیں۔ عورتوں کے "دبر"میں خواہش پوری کرنا بھی لواطت کی ایک قسم ہے اور یہ فعل تمام علماء کے نزیک حرام ہے۔