وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ
اور جو شہر پاکیزہ ہے اس کی کھیتی اس کے رب کے حکم سے نکلتی ہے اور جو خراب ہے (اس کی کھیتی) ناقص کے سوا نہیں نکلتی۔ اس طرح ہم آیات کو ان لوگوں کے لیے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں جو شکر کرتے ہیں۔
(45) جو زمین ذرخیز ہوتی ہے اسی میں اللہ کے حکم سے پودے اچھے اور نفع بخش نکلتے ہیں، اور جوخراب ہوتی ہے جیسے کالے پتھروں والی یا بنجر زمین اس میں اچھے پودوےنہیں پیدا ہوتے اور جو پیدا ہوتے ہیں وہ نفع بخش نہیں ہوتے، ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مثال کے ذریعہ مؤمن و کافر کا حال بیان کیا ہے، قتادہ کہتے ہیں کہ مؤمن قرآن کریم سن کر اسے یاد کرتا ہے اور اس کے معانی کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے، اور اس سے مستفید ہوتا ہے اس زرخیز زمین کی مانند جس میں بارش ہونے بعد پودے اگتے ہیں، لیکن کافر کی حالت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ صحیحین میں ابو موسیٰ اشعری (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے جو ہدایت اور علم دے کر بھیجا ہے اس کی مثال مو سلادھار بارش کی ہے، اچھی زمین اسے قبول کرلیتی ہے، پھر اس میں پودے اور بہت ساری سبزیاں اگتی ہیں، اور خشک اور سخت زمین پانی کو روک لیتی ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، پیتے ہیں جا نوروں کو سیراب کرتے ہیں، اور کھیتی اگاتے ہیں ، اور چٹیل اور اتھلی زمین میں نہ پانی رکتا ہے، اور نہ کوئی گھاس اگتی ہے یہ مثال آدمی کی ہے جس نے اللہ کے دین کو سمجھ کر حاصل کیا اور اس چیز سے مستفید ہوا جو اللہ نے مجھے دے کر بھیجا چناچہ اس سے علم حاصل کیا اور دوسروں کو تعلیم دی اور یہ مثال اس آدمی کی ہے جس نے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھایا اور نہ اس ہدایت کو قبول کیا جسے دے کر میں بھیجا گیا ہوں۔