وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ ۚ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۚ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ
اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہوگی اور (اس کی) بلندیوں پر کچھ مرد ہوں گے، جو سب کو ان کی نشانی سے پہچانیں گے اور وہ جنت والوں کو آواز دیں گے کہ تم پر سلام ہے۔ وہ اس میں داخل نہ ہوئے ہوں گے اور وہ طمع رکھتے ہوں گے۔
(33) جنت اور جہنم کے درمیان ایک دیوار حائل ہوگی، جسے قرآن کریم میں "سور"سے تعبیر کیا گیا ہے، اس کے اندر کی طرف اللہ کی رحمت اور جنت ہوگی، اور باہر کی طرف جہنم اور اس کا عذاب، اسی حجاب کو ' اعراف کہا گیا ہے جو عرف کی جمع ہے جس کا اطلاق ہر اونچی جگہ پر ہوتا ہے اس لیے اعراف سے مراد جنت و جہنم کے درمیان کی دیوار کی اونچی جگہ ہے۔ اصحاب اعراف کے بارے میں مفسرین نے صحابہ وتابعین سے کئی اقوال نقل کئے ہیں ؛ کسی نے کہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے، جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، ابن مسعود، حذیفہ بن الیمان اور ابن عباس (رض) ہم وغیر ہم کا یہی قول ہے، اور بعض حدیثیں اس قول کی تائید کرتی ہیں، اور کسی نے کہا ہے کہ وہ مؤمنوں میں افضل لوگ ہوں گے، کسی نے شہداء، کسی نے انبیاء اور کسی نے ان لوگوں کو بتایا ہے جو اللہ کی راہ میں ستائے گئے ہوں گے، یہ لوگ اہل جنت اور اہل جہنم سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے، اور ان لوگوں کو سلام کریں گے جنہیں جنت کی بشارت دی جا چکی ہوگی ابھی اس میں داخل نہیں ہوئے ہو ں گے لیکن اس کی خواہش ان کے دلوں میں کروٹ لے رہی ہوگی۔ اصحاب اعراف جب جہنم کی طرف نظر اٹھاکر دیکھیں گے تو ان جہنمیوں کو پہچان لیں گے جنہیں دنیا میں انہوں نے کفر وہ شرک اور اللہ سے بغاوت وسر کشی کرتے دیکھا ہوگا۔ تو مارے خوف کے جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے پکار اٹھیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں ظالموں کے ساتھ جہنم میں داخل نہ کر۔