فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۚ أُولَٰئِكَ يَنَالُهُمْ نَصِيبُهُم مِّنَ الْكِتَابِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُوا أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ
پھر اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے، یا اس کی آیات کو جھٹلائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں لکھے ہوئے میں سے ان کا حصہ ملے گا، یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے آئیں گے، جو انھیں قبض کریں گے تو کہیں گے کہاں ہیں وہ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے تھے؟ کہیں گے وہ ہم سے گم ہوگئے اور وہ اپنے آپ پر شہادت دیں گے کہ واقعی وہ کافر تھے۔
[٣٦] ٭افتراء علی اللہ کی اقسام : اس آیت میں قبول ہدایت کے لحاظ سے لوگوں کی اقسام بیان فرمائیں : ایک تو ایسے لوگ ہیں جو خود جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ کی طرف سے وحی آئی ہے یا وہ نبوت کا دعویٰ تو نہیں کرتے تاہم اپنے آپ کو اسی مقام پر سمجھتے ہیں باتیں خود گھڑتے ہیں پھر انہیں اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو سچے رسولوں کی تصدیق بھی نہیں کرتے اور ان پر نازل شدہ آیات سے انکاربھی کردیتے ہیں یہ سب طرح کے لوگ سب سے بڑھ کر ظالم ہیں، کیونکہ یہ صرف خود گمراہ نہیں ہوتے بلکہ بے شمار مخلوق کو گمراہ کرنے میں حصہ دار بنتے ہیں ایسے لوگوں کو بھی اس دنیا میں رزق جتنا ان کے مقدر میں ہے وہ ملتا ہی رہے گا کیونکہ انسانوں کی آزمائش صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے دیکھنا یہ ہے کہ کون رسولوں کا تابع فرمان بنتا ہے اور کون ابلیس اور اس کے چیلوں کا۔ [٣٧]٭ قبر میں سوال وجواب : اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات سے واضح ہوتا ہے کہ موت کے وارد ہوتے ہی ایسے مجرموں کو اپنے انجام کا پتہ چل جاتا ہے ایک اپنے انجام بد کی ہولناکی، دوسرے جان قبض کرنے والے فرشتوں کا کرخت لہجہ اور گفتگو، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام شرکیہ افعال بھول جاتے ہیں اور احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قبر میں جب سوال و جواب ہوتا ہے تو ایمان دار آدمی فرشتوں کے سب سوالوں کے صحیح صحیح جواب دیتا ہے مگر کفار اور مشرکین سے جب پوچھا جاتا ہے کہ تمہارا پروردگار کون ہے؟ تمہارا دین کیا تھا اور رسول کون تھا ؟ تو وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ افسوس! میں ان سوالوں کا جواب نہیں جانتا میں تو وہی کچھ کہہ دیا کرتا تھا (دنیوی زندگی میں) جو کچھ لوگ کہا کرتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ، ابو اب الکسوف، باب صلوۃ النساء مع الرجال فی الکسوف) ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ! جب قبر میں ہم سے سوال و جواب ہوگا تو اس وقت ہمارے حواس اور ہوش ٹھیک ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہاں۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے پھر ہم ان سوالوں کا جواب دے لیں گے۔ (مسلم۔ کتاب صفہ الجنۃ و نعیمھا، باب مقعد المیت من الجنۃ والنار) لیکن جن لوگوں نے کفر و شرک میں زندگی بسر کی ہوگی اور اپنی سستی نجات کے لیے کئی سہارے تجویز کر رکھے ہوں گے ان کو سب کچھ بھول جائے گا اور ان کا کچھ جواب نہ دینا ہی ان کے کفر پر دلیل بن جائے گا بلکہ زبان سے بھی اقرار کرلیں گے کہ ہم نے اپنی زندگی کفر وشرک ہی میں گزار دی۔ (تفصیل سورۃ ابراہیم کے حاشیہ ٣٥ میں دیکھیے)