قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
کہہ دے میرے رب نے تو صرف بے حیائیوں کو حرام کیا ہے، جو ان میں سے ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کو اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ اسے شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ پر وہ کہو جو تم نہیں جانتے۔
[٣٣] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانچ حرام چیزوں کا ذکر فرمایا جن کا تعلق کھانے کی چیزوں سے نہیں بلکہ اعمال سے ہے سب سے پہلے بے حیائی کا ذکر اس لیے فرمایا کہ سیدنا آدم علیہ السلام کے قصے سے یہ بیان چلا آ رہا ہے کہ کس طرح شیطان نے آدم و حوا (علیہما السلام) کو بے ستر کیا۔ پھر مشرکین مکہ کا ذکر کیا جو طواف تک برہنہ ہو کر کرتے اور اسے مذہبی تقدس کا درجہ دیتے تھے اور گناہ کا لفظ اگرچہ چھوٹے بڑے ہر طرح کے گناہ پر استعمال ہوتا ہے تاہم غالباً یہ لفظ یہاں ایسے گناہ کے لیے آیا ہے جس کا اثر اس کی ذات تک محدود رہے کسی دوسرے کو اس کا نقصان نہ پہنچ رہا ہو اور ناحق زیادتی سے مراد ایسے گناہ ہیں جن سے دوسروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں اور شرک تو تمام حرام کاموں میں سرفہرست ہے اور اللہ کے ذمے لگانے کی اس مقام پر وہی مثال کافی ہے جو مشرک کہتے تھے کہ آیت ﴿وَاللّٰہُ اَمَرَنَا بِہَا﴾ (الاعراف :28)