وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے تمھارا خاکہ بنایا، پھر ہم نے تمھاری صورت بنائی، پھر ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، وہ سجدہ کرنے والوں سے نہ ہوا۔
[٩]٭ تخلیق آدم اور نظریہ ارتقاء : اس آیت سے جو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے سجدہ کرنے کے حکم سے پہلے ہی انسانوں کی تخلیق ہوچکی تھی اور شکل و صورت بھی بنا دی گئی تھی تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس وقت سیدنا آدم علیہ السلام کی پشت سے قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد کی ارواح پیدا کی گئی تھیں اور ان روحوں کو وہی صورت عطا کی گئی تھی جو اس دنیا میں آنے کے بعد اس روح کے جسم کی ہوگی اور انہیں ارواح ہی سے اللہ تعالیٰ نے عہد آیت ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ﴾(الاعراف :172) لیا تھا۔ جسم میں روح کی یا روح کے جسم میں موجود ہونے کی مثال یوں دی جاتی ہے جیسے زیتون کے درخت میں روغن زیتون یا کوئلہ میں آگ یا جلنے والی گیس۔ اور بعض دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام کو اپنی تمام اولاد کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے یہاں ''کم '' کی ضمیر بطور جمع مذکر مخاطب استعمال ہوئی ہے یعنی اس وقت صرف سیدنا آدم علیہ السلام کو بنا کر پھر اسے صورت عطا کر کے فرشتوں کو یہ حکم دیا تھا۔ اس مقام پر یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے قائل ہیں اور انسان کو اسی ارتقائی سلسلہ کی آخری کڑی قرار دیتے ہیں وہ اسی آیت سے اپنے نظریہ کے حق میں استدلال کرتے ہیں اور ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں جمع کا صیغہ اس بات کی دلیل ہے کہ آدم سے پہلے بنی نوع انسان موجود تھی کیونکہ آدم (علیہ السلام) کو ملائکہ کے سجدہ کا ذکر بعد میں ہوا ہے۔ نیز اسی سورۃ کی اگلی آیات (١١ سے ٢٥ تک) کی طرف توجہ دلاتے ہیں جہاں کہیں تو آدم (علیہ السلام) اور اس کی بیوی کے لیے تثنیہ کا صیغہ آیا ہے لیکن اکثر مقامات پر جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اس کا ایک جواب تو اوپر دیا جا چکا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے سجدہ کرنے سے پیشتر ارواح کی تخلیق کی گئی۔ انہیں صورتیں دی گئیں اور انہی سے وعدۂ الست لیا گیا تھا اور یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے اور ان حضرات کے لیے دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر وہ سورۃ اعراف کی ان آیات کے ساتھ سورۃ بقرہ کی آیات نمبر ٣٠ تا ٣٦ دوبارہ ملاحظہ فرما لیں تو اس تثنیہ کے صیغہ کی حقیقت از خود معلوم ہوجائے گی۔ نیز اس مقام پر ابتداء میں دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام موجود انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ ’’اپنے پروردگار کی طرف سے نازل شدہ وحی کی اتباع کرو۔‘‘ پھر آگے چل کر آدم (علیہ السلام)، آپ کی بیوی اور ابلیس وغیرہ کا قصہ مذکور ہے، تو قرآن میں حسب موقع و محل صیغوں کا استعمال ہوا ہے ان آیات کے مخاطب آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد ہے نہ کہ آدم (علیہ السلام) اور اس کی بیوی کے آباؤ اجداد یا بھائی بند۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد اللہ نے فرشتوں سے اسے سجدہ کروایا پھر اس سے حوا علیہا السلام کو پیدا کیا پھر انہیں جنت میں آباد کیا۔ اگر آدم سلسلہ ارتقاء کے نتیجہ میں پیدا ہوئے تھے تو اس وقت ان کے آباؤ اجداد یا بھائی بند کہاں تھے؟ اب چونکہ اس مسئلہ ارتقاء کے قائلین کی بحث چھڑ ہی گئی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دوسرے قرآنی دلائل کا بھی جائزہ لے لیا جائے تاکہ حقیقت نکھر کر سامنے آ جائے۔ ٭ دوسری دلیل اور اس کا جواب : ان حضرات کی دوسری دلیل سورۃ نساء کی پہلی آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثیر مرد اور عورتیں (پیدا کر کے روئے زمین پر) پھیلائے۔‘‘ (النساء: 1) یہ آیت اپنے مطلب میں صاف ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم علیہ السلام اور ان کے زوج سے مراد ان کی بیوی حوا (علیہا السلام) ہے مگر ہمارے یہ دوست نفس واحدہ سے مراد پہلا جرثومہ حیات لیتے ہیں جو سمندر کے کنارے کائی سے پیدا ہوا تھا۔ اس جرثومہ حیات کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ وہ کٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا پھر ان میں سے ہر ایک ٹکڑا بڑا ہو کر پھر کٹ کر دو دو ٹکڑے ہوتا گیا اس طرح زندگی میں وسعت پیدا ہوتی گئی جو جمادات سے نباتات، نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے انسان تک پہنچی ہے۔ یہ دلیل اس لحاظ سے غلط ہے کہ آیت ﴿خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا﴾ ( النسآء :1) کے الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ اس جوڑے سے آئندہ نسل توالد و تناسل کے ذریعہ سے چلی تھی جبکہ جرثومہ حیات کی صورت یہ نہیں ہوتی آج بھی جراثیم کی پیدائش و افزائش اسی طرح ہوتی ہے کہ ایک جرثومہ کٹ کر دو حصے بن جاتا ہے اسی طرح افزائش تو ہوتی چلی جاتی ہے مگر ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ نہیں ہوتا لہذا وہ ایک جرثومہ کے دو ٹکڑے تو کہلا سکتے ہیں زوج نہیں کہلا سکتے۔ ٭ تیسری دلیل اور اس کا جواب : ان حضرات کی تیسری دلیل سورۃ علق کی دوسری آیت ہے کہ ’’اللہ نے انسان کو علق سے پیدا کیا۔‘‘ (العلق : ٤) علق کے لغوی معنی جما ہوا خون یا خون کی پھٹکی بھی ہے اور جونک بھی۔ ہمارے یہ دوست اس سے دوسرے معنی مراد لیتے ہیں اور اسے رحم مادر کی کیفیت قرار نہیں دیتے بلکہ اس سے ارتقائی زندگی کے سفر کا وہ دور مراد لیتے ہیں جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے تھے اور کہتے ہیں کہ انسان بھی جانداروں کی ارتقائی شکل ہے۔ اس اشکال کو کہ آیا یہ رحم مادر کا قصہ ہے یا ارتقائی زندگی کے سفر کی داستان ہے سورۃ مومنوں کی آیت ١٤ دور کردیتی ہے جو یہ ہے۔ ’’پھر ہم نے نطفہ سے علقۃ (لوتھڑا، جما ہوا خون، خون کی پھٹکی) بنایا پھر لوتھڑے سے بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اس انسان کو نئی صورت میں بنا دیا تو اللہ سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے۔‘‘ (المؤمنون : ١٤) انسان کی پیدائش کے یہ تدریجی مراحل صاف بتلا رہے ہیں کہ یہ رحم مادر میں ہونے والے تغیرات ہیں کیونکہ ارتقائے زندگی کے مراحل ان پر منطبق نہیں ہوتے۔ نیز یہ بھی کہ قرآن کریم نے علق سے مراد جما ہوا خون ہی لیا ہے۔ اس سے ارتقائی مراحل کی جونک مراد نہیں۔ اب ہم اپنی طرف سے نظریہ ارتقاء کے ابطال پر چند دلائل پیش کرتے ہیں : پہلی دلیل مراحل تخلیق : قرآن نے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے جو سات مراحل بیان فرمائے ہیں وہ درج ذیل ہیں :۔ (١) تراب بمعنی خشک مٹی (٤٠ : ١٧)۔ (٢) ارض بمعنی عام مٹی یا زمین (٧١ : ١٧) (٣) طین بمعنی گیلی مٹی یا گارا (٦ : ٢)۔ (٤)﴿ طِیْنٍ لَّازِب﴾ (٣٧ : ١١)۔ (٥) آیت ﴿حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ﴾ ( الحجر :26) بمعنی بدبودار کیچڑ (١٥ : ١٦)۔ (٦) صلصال بمعنی ٹھیکرا، حرارت سے پکائی ہوئی مٹی (١٥ : ١٦)۔ (٧) آیت ﴿صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ﴾ 55۔ الرحمن :14) یعنی ٹن سے بجنے والی ٹھیکری (٥٥ : ١٤) یہ ساتوں مراحل بس جمادات ہی میں پورے ہوجاتے ہیں۔ مٹی میں پانی کی آمیزش ضرور ہوئی لیکن بعد میں وہ بھی پوری طرح خشک کردیا گیا۔ غور فرمائیے اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسان کے جو سات مراحل بیان فرمائے ہیں وہ سب کے سب ایک ہی نوع (جمادات) سے متعلق ہیں ان میں کہیں نباتات اور حیوانات کا ذکر آیا ہے؟ اگر انسان کی تخلیق نباتات اور حیوانات کے راستے سے ہوتی تو ان کا بھی کہیں تو ذکر ہونا چاہیے تھا۔ سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق میں دو باتیں خصوصی نوعیت رکھتی ہیں ایک یہ کہ سیدنا آدم علیہ السلام کا پتلا اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور قرآن کے الفاظ آیت ﴿لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ﴾ (ص :75) اس کا ثبوت ہیں اور دوسرے پتلا تیار ہوجانے کے بعد اس میں اللہ تعالیٰ کا اپنے روح سے پھونکنا، جس کی وجہ سے انسان میں قوت ارادہ و اختیار اور قوت تمیز و عقل پیدا ہوئی جو دوسرے کسی جاندار میں نہیں ہے ہمارے یہ دوست عموماً اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے مراد دست قدرت یا قوت لے لیا کرتے ہیں مگر سوچنے کی بات تو صرف یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت اور قوت ہی سے پیدا کیا ہے پھر صرف آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے متعلق خصوصی ذکر کی کیا ضرورت تھی کہ میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا۔ دوسرے انسان میں جو قوت ارادہ و اختیار ہے وہ تسلسل ارتقاء کی صورت میں کب اور کیسے پیدا ہوگئی؟ ٩ ہجری میں نجران کے عیسائی مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مناظرہ کرنے آئے۔ موضوع الوہیت مسیح تھا۔ ان کا طرز استدلال یہ تھا کہ جب تم مسلمان خود تسلیم کرتے ہو کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا باپ نہیں تھا اور یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے تو بتاؤ کہ اگر وہ اللہ کے بیٹے نہ تھے تو ان کا باپ کون تھا ؟ اس دوران یہ آیت نازل ہوئی : ’’ اللہ کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال آدم (علیہ السلام) کی سی ہے آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اس سے کہا کہ ہوجا تو آدم ایک جیتا جاگتا انسان بن گیا۔ ‘‘ (٣ : ٥٩) یعنی عیسائیوں کو جواب یہ دیا گیا کہ اگر باپ کا نہ ہونا الوہیت کی دلیل بن سکتا ہے تو پھر آدم الوہیت کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ ان کی باپ کے علاوہ ماں بھی نہ تھی مگر انہیں تم اللہ یا اللہ کا بیٹا نہیں کہتے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کیسے اللہ یا اس کا بیٹا ہو سکتے ہیں؟ الوہیت مسیح کی تردید میں یہ دلیل اللہ تعالیٰ نے اس لیے دی تھی کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ پیدا ہونے میں عیسائی اور مسلمان دونوں متفق تھے لیکن آج مسلمانوں کا ایک طبقہ تو ایسا ہے جو معجزات کا منکر ہے وہ آدم (علیہ السلام) کی بغیر ماں باپ پیدائش کو تو تسلیم کرتا ہے مگر عیسیٰ (علیہ السلام) کی بن باپ پیدائش کو تسلیم نہیں کرتا۔ دوسرا فرقہ قرآنی مفکرین کا وہ ہے جو ارتقائی نظریہ کے قائل ہونے کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) کی بھی بن باپ پیدائش کے قائل نہیں۔ مندرجہ بالا آیت میں ان فرقوں کا رد موجود ہے وہ یوں کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کو آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے مثل قرار دیا ہے، جس کی ممکنہ صورتیں یہ ہو سکتی ہیں۔ ١۔ دونوں کی پیدائش مٹی سے ہے یہ توجیہ اس لیے غلط ہے کہ تمام بنی نوع انسان کی پیدائش مٹی سے ہوئی اس میں آدم (علیہ السلام) و عیسیٰ (علیہ السلام) کی کوئی خصوصیت نہیں۔ ٢۔ دونوں کی پیدائش ماں باپ کے ذریعہ سے ہوئی یہ توجیہ بھی غلط ہے کیونکہ انسان کی پیدائش کے لیے یہ عام دستور ہے آدم (علیہ السلام) و عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس میں کوئی خصوصیت نہیں کہ اللہ صرف ان دونوں کی پیدائش کو ایک دوسرے کی مثل قرار دیتے۔ لامحالہ دونوں کی پیدائش غیر فطری طریق سے ہوئی۔ ٣۔ اب تیسری صورت صرف یہ باقی رہ جاتی ہے کہ دونوں کے باپ کا نہ ہونا تسلیم کیا جائے اور یہی ان دونوں میں مثلیت کا پہلو نکل سکتا ہے جس میں دوسرے انسان شامل نہیں گویا یہ آیت بھی نظریہ ارتقاء کو باطل قرار دیتی ہے (نظریہ ارتقاء کی مزید تفصیلات کے لیے سورۃ حجر کی آیت نمبر ٣٩ کا حاشیہ نمبر ١٩ اور اس کے علاوہ میری تصنیف ’’عقل پرستی اور انکار معجزات‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔ [ ١٠] ابلیس کی حقیت سمجھنے کے لیے دیکھیے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٣٤ کا حاشیہ نمبر ٤٧)