سورة الاعراف - آیت 9

وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُم بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ شخص کہ اس کے پلڑے ہلکے ہوگئے تو یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا، اس لیے کہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ناانصافی کرتے تھے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧] ٭اعمال کا وزن حق کے ساتھ کیسے؟ آیت کے الفاظ یہ ہیں آیت ﴿وَالْوَزْنُ یَوْمَیِٕذِۨ الْحَقُّ﴾ (الاعراف :8) (یعنی اس دن وزن صرف حق یا حقیقت کا ہوگا) یعنی جتنی کسی عمل میں حقیقت ہوگی اتنا ہی وہ عمل وزنی ہوگا مثلاً ایک شخص اپنی نماز نہایت خلوص نیت سے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کی رضامندی چاہتے ہوئے خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتا ہے تو اس کا یہ عمل یقیناً اس شخص کی نماز سے بہت زیادہ وزنی ہوگا جس نے اپنی نماز بےدلی سے، سستی کے ساتھ اور دنیوی خیالات میں مستغرق رہ کر ادا کی اور جس عمل میں حق کا کچھ بھی حصہ نہ ہوگا اس کا وزن کیا ہی نہیں جائے گا، جیسے سورۃ کہف کی آیت نمبر ١٠٥ میں مذکور ہے کہ ’’جن لوگوں نے اپنے پروردگار کی آیات سے کفر کیا ہوگا ان کے لیے ہم میزان قائم ہی نہیں کریں گے۔‘‘ اور سورۃ فرقان کی آیت نمبر ٢٣ میں فرمایا کہ ’’ہم ایسے کافروں کے اعمال کی طرف پیش قدمی کریں گے تو انہیں اڑتا ہوا غبار بنا دیں گے‘‘ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ میزان عدل صرف ان لوگوں کے لیے قائم کی جائے گی جو ایمان لائے تھے اور ان کے اعمال اچھے اور برے، وزنی اور کم وزن والے ملے جلے ہوں گے۔ کافروں کے لیے ایسی میزان قائم کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوگی اور ان الفاظ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اعمال کا حق کے ساتھ وزن کیا جائے گا یعنی فلاں شخص کے فلاں عمل میں حقیقت کتنی تھی۔ اس بات کا فیصلہ بھی نہایت انصاف کے ساتھ کیا جائے گا۔ کتاب و سنت کی تصریحات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اعمال کی میزان (ترازو) ایسی ہی ہوگی جیسی ہمارے استعمال میں آتی ہے، اس کے دو پلڑے ہوں گے ایک میں نیکیاں رکھی جائیں گی اور دوسرے میں برائیاں۔ اس ترازو کی زبان بھی ہوگی زبان سے مراد ترازو کے اوپر کے ڈنڈے کے درمیان میں لگی ہوئی وہ سوئی ہے جو خفیف سے خفیف فرق کو بھی ظاہر کردیتی ہے اور یہ باتیں صرف ہمارے سمجھانے کے لیے کافی سمجھی گئی ہیں باقی اس کی صحیح کیفیت کیا ہوگی؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بعض علماء کا قول یہ ہے کہ اس دنیا میں تو اعمال اعراض کی شکل میں ہوتے ہیں لیکن اس دن اعمال کو مجسم کیا جائے گا اور جس عمل میں جس قدر حق ہوگا اسے اتنا ہی بڑا جسم والا اور وزنی بنایا جائے گا پھر انہیں اس ترازو میں تولا جائے گا۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔