سورة الاعراف - آیت 7

فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِم بِعِلْمٍ ۖ وَمَا كُنَّا غَائِبِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر یقیناً ہم ان کے سامنے ضرور پورے علم کے ساتھ بیان کریں گے اور ہم کہیں غائب نہ تھے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦] ٭انصاف کا تقاضا اور شہادت کی اہمیت : یعنی کسی قوم پر ایسا عذاب آنا اس کے جرائم کی مکمل سزا نہیں ہوتی بلکہ اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کسی عادی مجرم کو گرفتار کرلیا جائے تاکہ آئندہ اس کے ظلم سے لوگ محفوظ رہیں بالفاظ دیگر اس قوم کے مظالم دوسری اقوام کو بھی متاثر نہ کرنے لگیں۔ پھر ایسے مجرموں پر اللہ تعالیٰ کی عدالت میں باقاعدہ مقدمہ پیش ہوگا۔ ایک فریق تو رسول ہوں گے جو ان کی طرف بھیجے گئے تھے اور دوسرا فریق یہ مجرم قوم ہوگی، دونوں کی شہادتیں ہوں گی، رسول کی شہادت یہ ہوگی کہ یا اللہ میں نے اس قوم کو تیرا پیغام پہنچا دیا تھا۔ مگر چونکہ قوم کو سزا کا خوف ہوگا اس لیے اسے رسول کی شہادت کے خلاف شہادت دینے کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آئے گا پھر اللہ تعالیٰ ان پر پوری حقیقت حال واضح فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تو کسی وقت بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں تھی مگر اللہ تعالیٰ کی اس وضاحت کے باوجود ان پر فرد جرم عائد نہیں کی جائے گی بلکہ ان کے ان اعضاء و جوارح کو اللہ تعالیٰ زبان عطا کریں گے جن سے اس جرم کے دوران کام لیے گئے تھے وہ ان مجرموں کے خلاف شہادت دیں گے پھر جب شہادت کے نصاب کی تکمیل ہوجائے گی تو اس وقت ان پر فرد جرم عائد ہوجائے گی اور انہیں سزا دی جائے گی جیسا کہ قرآن کی بعض دوسری آیات میں یہ وضاحت موجود ہے۔ مندرجہ بالا تصریحات سے ضمناً چند باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ دنیا میں بے شمار مجرم ایسے ہیں جو ظلم و ستم کرتے رہتے ہیں مگر کسی قسم کی سزا پائے بغیر وہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ان مجرموں کو سزا ضرور ملنی چاہیے اور علی رؤس الشہادات ملنی چاہیے تاکہ کسی کو اس کے جرم کی سزا نہ زیادہ ملے اور نہ اس پر ظلم ہو اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو ایک دوسری زندگی ملے جس میں ایسے تمام تر مقدمات کے فیصلے ہوں۔ ٭ فیصلہ کرنے کے لئے شہادت ضروری ہے : اور دوسری بات یہ مستنبط ہوتی ہے کہ قاضی محض اپنے علم کی بنا پر مقدمے کا فیصلہ نہیں دے سکتا بلکہ فیصلہ اور سزا شہادتوں کی بنا پر ہی دئیے جا سکتے ہیں اور اس کی دلیل یہ واقعہ ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مدینہ میں ایک فاحشہ عورت رہتی تھی لوگوں کی اس کے ہاں آمد و رفت کی وجہ سے اس کی فحاشی کھل کر سامنے آ چکی تھی اور زبان زد عام تھی اس کے متعلق ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اگر شہادتوں کا نصاب اور نظام نہ ہوتا تو میں اس عورت کو رجم کردیتا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الطلاق۔ باب لوکنت راجما بغیربیّنۃ۔۔)