قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ ۚ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
کہہ دے کیا میں اللہ کے سوا کوئی رب تلاش کروں، حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے۔ اور کوئی جان کمائی نہیں کرتی مگر اپنے آپ پر اور نہ کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسری کا بوجھ اٹھائے گی، پھر تمھارے رب ہی کی طرف تمھارا لوٹ کر جانا ہے، تو وہ تمھیں بتائے گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
[١٨٧] یعنی کائنات کی ہر چیز کا پروردگار تو اللہ ہے اور میں بھی کائنات کا ایک حصہ ہوں تو پھر میرا پروردگار کوئی دوسرا کیسے ہوسکتا ہے۔ کائنات کی ایک ایک چیز اللہ کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق چل رہی ہے اور میں بھی اضطراری امور میں انہی مقررہ قوانین کا پابند ہوں۔ پھر جن باتوں میں مجھے تھوڑا بہت اختیار دیا گیا ہے میں کیوں نہ ان اختیارات کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا دوں اور پوری کائنات سے الگ الٹی روش کیوں اختیار کروں؟ [١٨٨] یہ ناممکن ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی! مشرکین مکہ میں سے اکثر جو روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے وہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ایسی توحید کو چھوڑ کر ہماری طرف آ جاؤ، اگر قیامت آئی بھی تو پھر تمہارے اس گناہ کا بوجھ ہم اٹھا لیں گے جیسا کہ سورۃ عنکبوت کی آیت نمبر ١٢ میں ذکر ہوا ہے۔ اس آیت میں مشرکوں کے اسی قول کا جواب دیا گیا ہے کہ ناممکن ہے کہ گناہ تو زید کرے اور اس کی سزا بکر بھگتے۔ ہر ایک سے اس کے اپنے اعمال کا محاسبہ ہوگا۔ پھر اسے ہی سزا دی جائے گی۔ [١٨٩] اس دن تم پر سب کچھ واضح ہوجائے گا کہ جن ہستیوں کو تم اللہ کا شریک سمجھ رہے تھے ان سے فریادیں کرتے اور مشکل کشائی کے لیے پکارتے تھے ان کی اللہ کے سامنے کیا حیثیت ہے اور جن اختلافات پر تم نے اپنے اپنے فرقوں کی بنیاد رکھی تھی سب کھل کر تمہارے سامنے آ جائیں گے۔