ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
آٹھ قسمیں، بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو۔ کہہ کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ؟ یا وہ (بچہ) جس پر دونوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہیں؟ مجھے کسی علم کے ساتھ بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔
[١٥٥] اس آیت میں اور اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرکوں کی ان خود ساختہ پابندیوں کا عقلی طور پر محاسبہ کیا ہے تاکہ ان کی بات کی غیر معقولیت کھل کر سامنے آ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے آٹھ جوڑوں کا ذکر کیا یعنی کل جنسیں چار ہیں اور جوڑے آٹھ مثلاً بھیڑ اور مینڈھا، بکرا اور بکری، اونٹ اور اونٹنی اور گائے اور بیل۔ اور یہی جانور ہیں جو عرب میں پائے جاتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ ان مشرکوں سے پوچھو کہ یہ کیا بات ہوئی کہ ایک ہی جنس کا نر تو حلال ہو اور مادہ حرام ہو۔ یا مادہ حلال ہو اور نر حرام ہو یا جانور خود تو حلال ہو؟ مگر اس کے پیٹ سے نکلا ہوا بچہ زندہ ہو تو کسی پر حرام ہو اور کسی پر حلال اور مردہ ہو تو وہ سب کے لیے حلال ہو؟ یہ تو ایسی غیر معقول باتیں ہیں جنہیں عقل سلیم ماننے سے انکار کرتی ہے۔ پھر کیا اللہ ایسی لغو باتوں کا حکم دے سکتا ہے اور کیا تم ایسے غیر معقول احکام کسی آسمانی کتاب سے دکھا سکتے ہو؟