وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اور وہی ہے جس نے باغات پیدا کیے چھپروں پر چڑھائے ہوئے اور نہ چڑھائے ہوئے اور کھجور کے درخت اور کھیتی، جن کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار ایک دوسرے سے ملتے جلتے اور نہ ملتے جلتے۔ اس کے پھل میں سے کھاؤ، جب وہ پھل لائے اور اس کا حق اس کی کٹائی کے دن ادا کرو اور حد سے نہ گزرو، یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔
[١٥٠] اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں مشرکوں کو یہ تنبیہ کی جا رہی ہے کہ کھیتیاں اور مویشی جن کے متعلق تم نے احکام کی ایک طویل فہرست اختراع کر رکھی ہے ان کو پیدا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے پھر کیا یہ نمک حرامی نہیں کہ تم اللہ کے دیئے ہوئے رزق سے درباروں اور بتوں کے حصے نکالو اور اس میں بھی بتوں کے ہی حصوں کو تمہیں پورا کرنے کی فکر ہوتی ہے اور اللہ سے زیادہ تم انہیں سے ڈرتے ہو۔ کھیتی اور مویشی تو اللہ نے پیدا کیے مگر حلال و حرام کے اختیار تم نے خود سنبھال رکھے ہیں۔ [١٥١] اس میں درختوں، پھلوں اور کھیتی کے متعلق جو کچھ ذکر ہوا ہے ان میں سے ایک ایک بات پر غور کیا جائے تو ان سے اللہ کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے۔ اور ایسے حقائق بیان کیے جا رہے ہیں جنہیں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ [١٥٢] زکوٰۃ اللہ کا بندوں پر حق ہے :۔ اللہ کے حق سے مراد وہ صدقہ ہے جو اللہ کے نام پر اس فصل میں سے فقراء و مساکین وغیرہ کو دیا جائے کیونکہ یہ فصل اللہ نے ہی اپنے فضل سے پیدا کی ہے۔ اس مقام پر اس ''حق'' کی مقدار معین نہیں کی گئی اور اسے صدقہ دینے والوں کی مرضی پر چھوڑا گیا۔ یہ سورۃ مکی ہے جبکہ زکوٰۃ مدینہ میں فرض ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حق متعین فرما دیا کہ بارانی زمین سے زکوٰۃ پیداوار کا دسواں حصہ ہوگی اور آبپاشی والی زمین سے پیداوار کا بیسواں حصہ۔ نیز یہ بھی بتایا کہ کون کون سی پیداوار پر زکوٰۃ واجب ہے اور کتنی پیداوار ہو تو واجب ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل امور کا لحاظ رکھا جائے گا۔ (١) پیداوار کی زکوٰۃ کے متعلق مسائل اور احادیث :۔ زرعی زکوٰۃ میں سال گزرنے کی شرط نہیں ہوتی۔ بلکہ جب فصل کاٹی جائے یا پھل توڑا جائے۔ اسی وقت زکوٰۃ واجب ہوگی جیسا کہ آیت مذکورہ سے واضح ہے۔ (٢) کھیتی اگر چشمہ یا بارانی پانی سے سیراب ہو تو اس میں عشر یا دسواں حصہ زکوٰۃ ہے اور اگر پانی مصنوعی طریقوں یعنی کنوئیں یا ٹیوب ویل یا نہروں سے دیا جا رہا ہو۔ جس پر محنت بھی ہو اور خرچ بھی تو اس میں نصف عشر یا بیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ باب العشر فیما یسقی من ماء السماء والماء الجاری ) (٣) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گندم، جو، منقیٰ (خشک انگور) اور کھجور سے زکوٰۃ لی جاتی تھی۔ مگر ہمارے یہاں اور بھی کئی اجناس بکثرت پیدا ہوتی ہیں۔ جیسے چاول، چنے، جوار، باجرہ، مکئی وغیرہ ان سب پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ (٤) غلہ کی پیداوار اگر پانچ وسق یا ٩٤٨ کلو گرام سے کم پیدا ہو تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی، یہی غلہ کا نصاب ہے۔ اور اس قدر زکوٰۃ کو کاشتکار یا زمیندار کے گھر کا سالانہ خرچہ ہی تصور کیا جائے گا۔ ہاں اگر اس سے تھوڑی سے بھی زائد ہو تو ساری مقدار پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’پانچ وسق کھجور سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ چاندی (ساڑھے باون تولہ) سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اونٹ سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب لیس فی مادون خمس ذود صدقۃ) (٥) عرب میں خشک پھلوں میں سے منقیٰ اور کھجور کا ذکر آیا ہے جبکہ ہمارے ہاں اور بھی بہت سے خشک پھل کثیر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے اخروٹ، بادام، خوبانی، مونگ پھلی، کشمش وغیرہ۔ یہ سب چیزیں جب حد نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر زکوٰۃ واجب ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ عرب میں گھوڑے بہت کم تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب لیس علی المسلم فی فرسہ صدقۃ) مگر دور فاروقی میں جب ایران فتح ہوا جہاں گھوڑے بکثرت پائے جاتے تھے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گھوڑوں پر زکوٰۃ عائد کردی اور انہیں گائے کے مثل قرار دیا۔ (٦) ایسی سبزیاں اور ترکاریاں جو جلد خراب نہیں ہوتیں مثلاً آلو، لہسن، ادرک، پیٹھا وغیرہ ان پر زرعی زکوٰۃ واجب ہوگی اور جو جلد خراب ہوجانے والی ہیں مثلاً کدو، ٹینڈا، کریلے، توریاں وغیرہ ان پر زرعی زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی بلکہ سال کے بعد ان کے منافع پر تجارتی زکوٰۃ عائد ہوگی یعنی اڑھائی فیصد یا چالیسواں حصہ۔ (٧) حد نصاب پانچ وسق یا ٩٤٨ کلو گرام کا اطلاق صرف اس غلہ پر ہوگا جو عموماً اس ملک میں روزمرہ خوراک کا حصہ ہو اور کثیر مقدار میں پیدا کیا جاتا ہو۔ جیسے ہمارے ملک میں چاول، گندم اور چنے وغیرہ اور جو غلہ اس ملک کی خوراک کا حصہ نہ ہو اور کم پیدا ہوتا ہو یا کیا جاتا ہو۔ جیسے ہمارے ہاں جوار، باجرہ اور مکئی وغیرہ۔ ان میں حد نصاب شرط نہیں۔ جیسے دور نبوی میں کھجور اور منقیٰ بطور خوراک استعمال ہوتے تھے تو آپ نے ان چیزوں کو محل نصاب قرار دیا مگر ہمارے یہاں کوئی بھی پھل بطور خوراک استعمال نہیں ہوتا لہٰذا ان پر حد نصاب شرط نہ ہوگی۔ [١٥٣] اسراف کی صورتیں :۔ اسراف کے بھی کئی پہلو ہیں مثلاً ایک شخص فرض شدہ زکوٰۃ سے زیادہ دینا چاہتا ہے تو بلاشبہ یہ ایک بہت اچھا عمل اور نیکی کا کام ہے مگر اتنا بھی زیادہ نہ دے کہ خود محتاج ہوجائے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی ہے کہ ’’افضل صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمی خود محتاج نہ ہوجائے۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب افضل الصدقہ عن ظھر غنی) اسراف کی دوسری شکل یہ ہے کہ کسی گناہ کے کام میں یا غیر ضروری کام میں خرچ کر دے۔ ایسے کاموں میں تھوڑا سا خرچ کرنا بھی گناہ ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اپنی ذات پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرے۔ غرض اسراف کی جتنی صورتیں ہیں سب ناجائز ہیں۔